کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 62
دعوتی ضرورت ہے لیکن اشتہارات پر خطبائے کرام اور مبلغین عظام(الاماشاء اللہ)اور خطبائے شیریں بیان کا ناموں کی ترتیب اور کتابت اسماء کے حجم اورالقابات کی کمی وقلت پر بگڑ جانا اور تبلیغی پروگراموں میں اسی بنا پر شرکت نہ کرنا بہر حال مخلص اور سادہ مسلمانوں کے قلب واذہان پہ سوالیہ نشان رقم کرتا ہے کہ یہ خلوص نیت اور فی سبیل اللہ کی کون سی قسم ہے؟
۲۔متابعت
یعنی مبلغ وخطیب کو دعوت الی اللہ کا مشن ادا کرتے وقت امام الدعاۃ والمبلغین،سید الفصحاء وافضل الخطباء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ پیش نگاہ رکھنا چاہئے (جسکی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز خطابت میں گزر چکی ہے)کیونکہ اخلاص اورمتابعت عمل کی قبولیت اور اس میں برکت کے لیے شرط اور لازمی و ضروری امر ہیں۔بقول شاعر:
واعلم بأن الاجر لیس بحاصل إلا اذا کانت لہ صفتان
لا بد من اخلاصہ ونقائہ وخلوہ من سائر الادران
وکذا متابعۃ الرسول فإنہا شرط بحکم نبینا العدنان[1]
یہ بات بخوبی جان لیجئے کہ جب تک کسی عمل میں دوقسم کے اوصاف نہ پائے جائیں تب تلک اس کے اجرو ثواب کا حصول نا ممکن ہے۔ (ایک)اخلاص یعنی اس عمل کا ہر قسم کی آمیزش (شرک و ریا کاری وغیرہ)سے پاک ہونا اور (دوسرا)رسو ل اکرم نے (متابعت)کو شرط قراردیاہے ۔یعنی وہ عمل نبی اکرم کی سنت کے مطابق ہو۔
۳۔علم
خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطبہ کے موضوع سے متعلق صحیح اور مکمل معلومات سے آگاہ ہو کیونکہ (فاقد الشیٔ لا یعطیہ )ا گروہ خود نہیں جانتا تو کسی دوسرے کو کیا بتائے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ }[2] آیت مبارکہ میں دعاۃ و خطباء کومیدان عمل میں اترنے سے قبل علمی اسلحہ سے لیس ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
{ قُلْ ہَـذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ}[3]
[1] الشامل:ص22
[2] التوبۃ9:122
[3] یوسف12:108