کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 611
’’بے شک تمھاری یہ امت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں ، لہٰذا تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘ اور فرمایا:{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا }[1] ’’ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میںنہ بٹو ۔‘‘ یہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس امت کو اتفاق واتحاد کا درس دیتا ہے اور اختلاف اور گروہ بندی سے منع کرتا ہے اور اس وقت اس امت کی جو افسوسناک صورتحال ہے کہ یہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے اور دشمن اس پر غلبہ حاصل کر چکا ہے ! اس سے نکلنے کا واحد راستہ وہی ہے جسے اس امت کے اولیں لوگوں نے اختیار کیا اور جسے اختیار کرکے انھوں نے ایک امت کا قابلِ رشک تصور پیش کیا اور آپس میں بے مثال اتفاق واتحاد پیدا کیا اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ۔ صرف اللہ کے قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی ۔ بس ان دو کے علاوہ تیسرا کوئی نہ تھا جسے پیشوا سمجھا جاتا اور جس کی فرمانبرداری کی جاتی اور یہی در اصل وہ صراط مستقیم ہے جس پر چلنے کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے۔فرمان الٰہی ہے : {وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ}[2] ’’ اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہٰذا تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا جدا کردیں گے۔ یہ تمھارے لئے اللہ کا تاکیدی حکم ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو ۔‘‘ اس خطبۂ حجۃ الوداع میں دوسری بات جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی وہ ہے قومیت اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تفاضل کا خاتمہ۔ یعنی کسی قوم کو دوسری قوم پر اور کسی رنگ کو دوسرے رنگ پر کوئی فضیلت نہیں۔ہاں اگر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت ہے تو صرف تقوی کے اعتبار سے ہے۔ لہٰذا جو قوم یا جو شخص زیادہ متقی اورپرہیزگار ہو گا اسے دوسری تمام اقوام اور تمام افراد پر فوقیت حاصل ہوگی چاہے اسکا تعلق عربوں سے ہو یا عجمیوں سے اور چاہے اسکا رنگ گورا ہو یا کالا ۔
[1] آل عمران3 :103 [2] الأنعام6:153