کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 61
لہٰذاخطیب کو چاہئے کہ وہ خطبہ سے رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش کرے اور قبولیت اعمال کے لیے بنیادی شروط اخلاص اور متابعت کو مدنظر رکھے کیونکہ اخلاص اور رضائے الٰہی کا حصول اعمال کی کامیابی کے لیے اصل اور اساس ہے ۔ یہی سبب ہے کہ انبیاء علیہم السلام برملا اپنے مخاطبین سے فرمایا کرتے تھے{ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ} ’’میں آپ سے اس عمل (دعوت الی اللہ)پر اجرت نہیں طلب کرتا‘‘ بلکہ اللہ کی رضا کے لیے آپ کی اصلاح چاہتا ہوں۔ { اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ عَلَیہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ}[1] ’’ میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوںجہاں تک مجھ سے ممکن ہو سکا اور مجھے صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق درکار ہے اسی پر میرا توکل اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘ اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ کَفَاہُ اللّٰہُ مَؤُنَۃَ النَّاسِ وَ مَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ وَکَّلَہُ اللّٰہُ اِلَی النَّاسِ[2])) ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لوگوں کی ناراضگی کی پرواہ نہ کی اللہ تعالیٰ لو گوں کی تکالیف کے مقابلہ میں اس کے لئے کافی ہو جا تا ہے ۔ اور جو لوگوں کی رضا جوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے ا اللہ تعالیٰ بھی اسے لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے۔‘‘ اور حضرت بشر بن عقربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ( مَنْ قَامَ بِخُطْبَتِہٖ لاَ یَلْتَمِسُ بِہَا اِلاَّ رِیَائً وَسُمْعَۃً اِلاَّوَقَّفَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَو مَ الْقِیَامَۃِ مَوْقِفَ رِیَائٍ وَسُمْعَۃٍ) [3] ’’کہ جس شخص نے اپنے خطبہ کو(رضائے الٰہی کے حصول کی بجائے)نمود ونمائش اور طلب شہرت کا ذریعہ بنایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی اس کی لوگوں کے سامنے نمائش اور تشہیر کرے گا۔‘‘ وضاحت: اگر کوئی ادارہ یا مسجد کمیٹی وغیرہ خطیب کا مشاہرہ مقرر کردے تو یہ اخلاص کے منافی نہیں ہے لیکن ’ثم خیرا‘ کے عادی اور زیادہ پیسوں کے لالچ میں آئے روز مساجد تبدیل کرنے والے خطباء کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ تبلیغ پیشہ یا ملازمت نہیں بلکہ یہ ایک پاکیزہ مشن ہے ۔یہ انبیاء کی میراث ہے ، اس کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے اور اسی طرح لوگوں کو خطبہ یا تبلیغی پروگرام کی اطلاع دینے کے لیے اشتہارات اور اعلانات کو ذریعہ بنانے میں مضائقہ نہیں بلکہ یہ
[1] ھود11:88 [2] سنن الترمذی:2414 [3] مسند أحمد:500/3