کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 609
ہونگے ۔‘‘ میں نے کہا: اگر میں ایسے دور کو پا لوں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم حکمران کی بات سننا اور اس پر عمل کرنا اگرچہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے اور تمھارا مال ضبط کرلے ۔‘‘ اورحضرت عیاض بن غنیم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ أَرَادَ أَنْ یَّنْصَحَ لِذِیْ سُلْطَانٍ فَلَا یُبْدِہٖ عَلاَنِیَۃً،وَلْیَأْخُذْ بِیَدِہٖ،فَإِنْ سَمِعَ مِنْہُ فَذَاکَ،وَإِلَّا کَانَ أَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ[1])) ’’ جو شخص صاحبِ اقتدار کو نصیحت کرنا چاہے وہ علی الاعلان نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر علیحدہ ہو جائے (اور پھر نصیحت کرے۔ ) اگر وہ مان لے تو ٹھیک ہے ، ورنہ نصیحت کرنے والا اپنا فرض پورا کر چکا ۔‘‘ عزیزان گرامی ! یہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی احادیث اصحابِ اقتدار کے بارے میںاہل السنۃ والجماعۃ کے منہج وموقف کی وضاحت اور اس کا ثبوت پیش کر رہی ہیں ۔ لہٰذا اسی موقف کو اپنانا چاہئے اور اس سے انحراف کرکے ملک میں انارکی اور بغاوت کی فضا نہیں پیدا کرنی چاہئے کیونکہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے ملک میں بد نظمی ، لا قانونیت اور انتشار پھیلتا ہے اور اگر حکام بغاوت کو کچلنے پر آمادہ ہو جائیں تو بے گناہ جانیں ضائع ہوجاتی ہیں ۔۔۔ ہاں اگر اصحابِ اقتدار واضح کفر کا ‘ جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ ہو ‘ ارتکاب کریں اور اصحابِ علم وفضل کے سمجھانے کے باوجود وہ اس کفر کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوں تو ان کے خلاف خروج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خروج کرنے سے ‘کسی بڑے شر اور فساد کے پھیلنے کا اندیشہ نہ ہو اور خروج کرنے والے بغیر خون خرابے کے اصحابِ اقتدار کو ہٹانے پر قادر ہوں اور اگر وہ انھیں ہٹانے پر قادر نہ ہوں یا خروج کرنے سے کسی بڑے شر کے آنے کا خطرہ ہو تو پھر صبر کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں ۔ حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم ہرحال میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے حتی کہ اگر ہماری حق تلفی کی گئی تو تب بھی ہم فرمانبرداری ہی کریں گے۔ اور یہ کہ ہم اصحابِ اقتدار سے اقتدار چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوائے اس کے کہ تم واضح کفر دیکھو جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل موجود ہو ۔‘‘[2] خلاصہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس خطبہ میں پانچ باتوں کا حکم دیا ( تقوی ، پانچ نمازیں ، ماہِ رمضان کے روزے ، اموال کی زکاۃ اورحاکم کی فرمانبرداری۔ ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں کا تذکرہ کرنے کے
[1] رواہ ابن أبی عاصم وصححہ الألبانی فی ظلال الجنۃ:1096 [2] صحیح البخاری:7055،صحیح مسلم ،الإمارۃ باب وجوب طاعۃ الأمراء فی غیر معصیۃ:1709