کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 607
(۵) حاکم ِ وقت کی اطاعت
اس خطبۂ یوم النحر کی پانچویں بات ہے ( أَطِیْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ )
یعنی ’’اپنے حکمرانوں اور ذمہ داران کی اطاعت کرو ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعدولی الأمر(حاکم)کی اطاعت کا حکم دیا ہے :
{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ}[1]
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرو اور ان کی جو تم میں اصحابِ اقتدار ہوں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب اقتدار کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ، لیکن اپنی اطاعت کا حکم دینے کے بعد رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کیلئے (أطیعوا) کا لفظ دوبارہ استعمال کیا ، جبکہ اصحابِ اقتدار کی فرمانبرداری کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت مستقل ہے جبکہ اصحابِ اقتدار کی فرمانبرداری مستقل نہیں بلکہ مشروط ہے اور وہ شرط کیا ہے ؟
اس کی وضاحت حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کی گئی ہے :
(( عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ فِیْمَا أَحَبَّ أَوْ کَرِہَ،إِلَّا أَنْ یُّؤْمَرَ بِمَعْصِیَۃٍ،فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ[2]))
’’ سننا اور فرمانبرداری کرنا مسلمان پرضروری ہے ، خواہ اسے اس بات کا حکم دیا جائے جو اسے پسند ہو یا اس بات کا جو اسے ناپسند ہو ۔ ( یعنی ہر حال میں فرمانبرداری کرنا لازم ہے ۔) سوائے اس کے کہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے ۔ لہٰذا اگر اسے ( اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ) نافرمانی کرنے کا حکم دیا جائے تو اس حکم کو نہ سنا جائے اور نہ اسے مانا جائے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حاکم/ سربراہ / صاحبِ اقتدار کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مشروط ہے ۔ چنانچہ اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں حاکم وقت اور اصحابِ اقتدار کی فرمانبرداری نہیں کی جائے گی ۔
برادران اسلام ! اس دور میں معمولی سی باتوں پر اصحابِ اقتدار کے خلاف آوازیں بلند کی جاتی ہیں ، احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ ملک میں شر انگیز فضا پیدا کر دی جاتی ہے ، جلسوں اور جلوسوں میں حکمرانوں اور وزیروں کو
[1] النساء4 :59
[2] صحیح البخاری :7144،صحیح مسلم :1839