کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 606
نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا : (( وَاللّٰہِ لَوْ مَنَعُوْنِیْ عِقَالًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلٰی مَنْعِہٖ [1])) ’’ اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں گے جو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے ‘ تو میں ان سے اس کے انکار پر بھی جنگ کرونگا ۔‘‘ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی کس قدر اہم ہے ! خاص طور پر ایسا معاشرہ جس میں طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہو ، جہاں ایک گھر میں ہر قسم کی آسائش اور دنیا کی ہر نعمت موجود ہو اور اسی کے پڑوس میں کھانے پینے کو بھی کچھ نہ ہو اور جہاں ایک محلے میں کئی اغنیاء رہائش پذیر ہوں اور انہی کے پہلو میں کئی فقراء ، مساکین اور محتاج بھی موجود ہوں ، وہاں زکاۃ کی اہمیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ سب سے پہلے لوگوں کو توحید ورسالت کی طرف دعوت دیں ۔ اگر وہ قبول کرلیں تو انھیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا: (( فَإِذَا فَعَلُوْا فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ زَکَاۃً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِہِمْ …)) [2] ’’ اگر وہ ایسا کرلیں ( یعنی نمازیں پڑھنا شروع کردیں ) تو انھیں خبردار کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے اغنیاء سے لے کر انہی کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : {خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا…}[3] ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان کے مالوں سے صدقہ ( زکاۃ ) وصول کیجئے جس کے ذریعے ان ( کے اموال ) کو پاک اور ان (کے نفوس ) کا تزکیہ کیجئے ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کی ادائیگی سے مال پاک ہوتا ہے اور حرص ، بخل اور لالچ وغیرہ سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے ۔
[1] صحیح البخاری:1399،صحیح مسلم :20 [2] صحیح البخاری:1458،صحیح مسلم:19 [3] التوبۃ9:103