کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 605
تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ، ذرا سا میل بھی باقی نہیں رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔‘‘ (۳) ماہِ رمضان کے روزے پانچ نمازوں کی طرح ماہِ رمضان کے روزے بھی ہر مکلف مسلمان پر فرض ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} [1] ’’اے ایمان والو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے روزوں کے کئی فضائل بیان فرمائے۔ ان میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ : (( مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ [2])) ’’جو شخص ایمان ویقین کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ سے اجر طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ اور بہت سارے فضائل دیگر احادیث میں ثابت ہیں جن کا تذکرہ ہم تفصیل سے رمضان المبارک کے خطبات کے ضمن میں کر چکے ہیں۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں لوگوں کے بہت بڑے مجمع کے سامنے جہاں دیگر اعمال صالحہ کی تاکید فرمائی وہاں ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کے متعلق بھی تاکید فرما دی تاکہ ان کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔ (۴) مال کی زکاۃ اس حدیث کی چوتھی بات اموال کی زکاۃ ادا کرنا ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے وہاں زکاۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ زکاۃ کی اہمیت بھی نماز سے کم نہیں۔ اس لئے اصحابِ اموال کو زکاۃ ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آغاز میں جن لوگوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا تھا آپ
[1] البقرۃ2 :183 [2] متفق علیہ