کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 600
’’ خبر دار ! ہر مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے اور کوئی والد جرم کرے تو اس کا وبال اس کی اولاد پر نہیں پڑتا اور کوئی اولاد جرم کرے تواس کی ذمہ داری اس کے والد پر نہیں پڑتی۔ خبردار! شیطان اس بات سے یقینا مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس شہر میں اس کی کبھی پوجا کی جائے گی ، ہاں بعض ان اعمال میں اس کی اطاعت ضرور کی جائے گی جنہیں تم معمولی سمجھو گے ، تو وہ بس اسی پر ہی خوش ہو جائے گا ۔۔‘‘ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی طرف اشارہ فرمایا : (۱) ہر شخص اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے ۔ لہٰذا اس کے جرم کا بدلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اسی سے لیا جائے گا۔ اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا : { وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی}[1] ’’ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔‘‘ نیز فرمایا : { کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ }[2] ’’ہر نفس اپنی کمائی کے ساتھ گروی ہے ۔‘‘ اور عربوں میں چونکہ یہ عام رواج تھا کہ ایک شخص کے جرم کی پاداش میں اس کے کسی قریبی رشتہ دار کو پکڑ لیتے تھے جو کہ سراسر ظلم تھا ۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع کے دوران اس سے منع کرتے ہوئے قانونِ جرم وسزا کی ایک اہم شق کو بیان فرمایا دیاکہ ’’ جو کرے گا وہی بھرے گا ‘‘ یہ نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی ! (۲) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر والد اور اولاد دونوں کا تذکرہ کیاکہ ان میں سے کوئی جرم کرے تو اس کی پاداش میں دوسرے کو سزا نہیں دی جا سکتی ۔ یعنی والدکے جرم کی سزا اس کی اولاد کو یا اولاد کے جرم کی سزا اس کے والد کو دینا درست نہیں ۔ جب والد اور اس کی اولاد کے ما بین یہ معاملہ نہیں ہو سکتا تو کسی اور کے درمیان بالاولی نہیں ہو سکتا ۔ (۳) اس روایت کی تیسری اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے آگاہ فرمایا کہ اب جبکہ لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں اور کل تک جو قبائل اسلام کے دشمن تھے وہ آج مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں تو شیطان اپنے طور پر اس سے مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرۃ العرب میں اس کی عبادت یعنی کفریہ کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے گی ۔ ہاں بعض اعمال ‘ جنھیں عام طور پر لوگ معمولی تصور کرتے ہیں مثلا جھوٹ ، خیانت ، چغل
[1] الإسراء17 :15 [2] المدثر74:38