کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 60
3۔فی البدیہہ خطیب
فی البدیہہ خطیب سے مراد وہ خطیب ہے کہ جو نصوص اور موضوع خطبہ کو فہم وبصیرت کے ساتھ ازبر اور ذہن نشین کرتا ہے اور پھر کامل مہارت اور حسن القاء اور مؤثر انداز میں سامعین کے گوش گزار کرتا ہے ۔ ایسا خطیب اگر موضوع اور وقت کی پابندی کا خیال رکھے تو یہ سب سے افضل اور ناجح خطیب ہے کیونکہ اس کا انداز بیان اپنا اور اس کی توجہ سامعین پر ہوتی ہے۔ایسا خطیب اگر موضوع کی پابندی اور اس کا احاطہ کرنے کی غرض سے موضوع سے متعلقہ اشارات اور عناوین تحریر کر کے سامنے رکھ لے تو یہ امر بھی مستحسن ہے تاکہ موضوع بھی تشنہ نہ رہے اور وقت کی بھی پابندی ہو جائے لیکن ایسا خطیب بننے کے لیے فن خطابت کی تدریب ، وسیع مطالعہ اور فقہ الواقع کا صحیح ادراک ازبس لازمی ہے۔
خطیب اِسلام کی صفات
1۔اِخلاص
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ حقیقت خود کو منوا لیتی ہے ما نی نہیں جاتی
خطبہ اور دعوت الی اللہ عبادت ہے اور خطیب ومبلغ وراثت نبوی کا امین اور ایک انتہائی افضل واہم مشن کے لیے سرگرم عمل ہوتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ }[1]
’’ اور ا س شخص سے احسن وبہتر کس کی بات ہے جو دعوت الی اللہ کا کام کرتا اور عمل صالحہ کو شیوہ بناتا ہے اور کہتاہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
اور نبی مکرم نے حضرت علی سے فرمایا تھا :(( وَاللّٰہِ لَاَنْ یَّہْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ)) [2]’’ اللہ کی قسم! آپ کے ذریعے اگر اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو بھی ہدایت عطا کردی تو آپ کیلئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘
اور اخلاص ہی میں برکت ہے ۔ارشاد باری ہے:
{ أَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَائً وَ أَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْارْضِ}[3]
[1] فصلت41:33
[2] صحیح البخاري،کتاب المغازی:4210
[3] الرعد13:17