کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 597
خالص کرتے ہوئے کرتے رہیں ۔ خبردار ! دینِ خالص اللہ کیلئے ہی ہے ۔‘‘ اسی طرح فرمایا : {قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ}[1] ’’ آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کیلئے ہے جوکہ تمام جہانوں کا رب ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔‘‘ ان تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عمل صالح کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا ضروری ہے ، ورنہ اگر کوئی عمل غیر اللہ کیلئے کیا جائے ، یا کسی عمل میں غیر اللہ کو شریک کر لیا جائے ، یا اس میں ریاکاری یا لوگوں سے تعریف سننے کی نیت شامل ہو جائے تو ایسا عمل کسی کام کا نہیں رہتا ، بلکہ الٹا وبالِ جان بن جاتا ہے ۔ (۲) سربراہانِ مملکت سے خیر خواہی کرنا سربراہانِ مملکت سے خیرخواہی کرنے سے مقصود یہ ہے کہ بر حق کاموں میں ان کی اطاعت کی جائے اور ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے توفیقِ الٰہی کی دعا کی جائے ۔ انھیں امورِ مملکت کے سلسلے میں نیک مشورے دئیے جائیں ، مملکت میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ان کی راہنمائی کی جائے ، معاشرے میں اسلامی اقدار کے فروغ اور منکرات کے خاتمے کیلئے انھیں اچھے انداز سے نصیحت کی جائے اور اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو ان کی غلطیوں کو لوگوں کے سامنے ذکر کر کے انھیں ان کے خلاف بغاوت پر نہ ابھارا جائے ، بلکہ خفیہ طور پر اور خیرخواہی کے انداز میں انھیں متنبہ کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (( اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ،قُلْنَا:لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ:لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ،وَلأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِہِمْ[2])) ’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : کس کیلئے اے اللہ کے رسول ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کیلئے ، اس کی کتاب کیلئے ، اس کے رسول کیلئے ، عام مسلمانوں کیلئے اور ان کے حکمرانوں کیلئے ۔‘‘
[1] الأنعام6:163-162 [2] صحیح مسلم:55