کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 59
فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔‘‘ نوٹ:دوران خطبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا سوائے بارش کی دعا کے کسی اور موقعہ پر ثابت نہیں ہے۔نیز دوران خطبہ دعامیں اگر امام ہا تھ نہ اٹھائے تو مقتدیوں کو بھی نہیں اٹھانے چاہیئیں۔ خطیب یعنی خطبہ دینے والا اور اس کی جمع خطباء آتی ہے۔عرب قادر الکلام اور فصیح اللسان شخص کو ’’رجل خطیب ای حسن الخطبۃ ‘‘کہتے ہیں۔ واقعاتی اور مشاہداتی اعتبار سے خطباء کوتین اقسام میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ 1۔خطبہ خوان یعنی وہ خطیب جو مستند اور معتمد علیہ مصادر اور مراجع سے خطبہ تیار کرتا ہے اور منبر پر کھڑے ہو کر سامعین کے سامنے حرف بحرف پڑھ کر سناتا ہے۔ایسے خطبہ میں جہاں وقت اور موضوع کی پابندی ہوتی ہے وہاں اس کی سلبیات اور منفی پہلو بھی ہیں۔ایک تو ایسا خطبہ سامعین پر اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کی خوبی سے خالی ہوتا ہے کیونکہ خطیب کی توجہ سامعین کی بجائے اپنے اوراق پر ہوتی ہے اور بالخصوص جب اوراق کی ترتیب میں خلل واقع ہوجائے تو بہت بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔اسی لیے ایسے خطبات میں اکثر لوگ اکتاہٹ کا شکار معلوم ہوتے، جمائیاں لیتے اور ان پر نیند کا غلبہ رہتا ہے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ خطیب کا خطبہ ختم ہو اور ان کو چھٹی ملے۔ 2۔خطبہ حفظ کرنے والے(رٹے باز)خطیب خطبہ کو حفظ اور نصوص کو یاد کرنے کے لیے قوی حافظہ اور پختہ یادداشت لازمی ہے کیونکہ اگر حفظ کردہ خطبہ میںسے کوئی عبارت بھول گئی توخطیب کو وہیں ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور اس کے اوسان خطا ہونے کی وجہ سے اسے سامعین کی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور خطبہ سے بھی بے ربط ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے خطبات کی تاثیر بھی سامعین میں بہت کم ہوتی ہے کیونکہ ایسا خطیب سامعین کے ظروف واحوال اور حوائج و ضروریات سے بے نیاز اپنا حفظ کردہ خطبہ سناتا چلا جاتا ہے اور بالخصوص ایسے خطباء جنہوں نے معروف خطباء کی تقاریر یاد کر رکھی ہیں ان کی تو بات ہی کیا ہے۔اگر خطبہ کا وقت ۳۰ منٹ ہے اور اس نے ڈیڑھ گھنٹہ کی جلسہ والی تقریر حفظ کی ہے تو وہ پوری سناکر ہی دم لے گا۔الا ماشاء اللہ