کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 587
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہدایت کے چشمے ہیں اور انہی دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے سے ہی گمراہی سے بچا جا سکتا ہے ۔
(۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت تک دین ِ کامل پہنچایا
عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع ارشاد فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخرمیں لوگوں سے پوچھا کہ لوگو ! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ لوگوں کے جمِ غفیر نے بیک زباں ہو کر کہا کہ آپ نے ہمیں دینِ الٰہی پہنچا دیا ، اللہ کی امانت ادا کردی اور ہماری خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بھی تین مرتبہ گواہ بنایا ۔۔۔۔۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دینِ الٰہی مکمل طور پر امانت داری کے ساتھ اپنی امت تک پہنچا یا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس بات کی طرف اپنی امت کی راہنمائی فرمائی جس میں اس کی خیر وبھلائی تھی ۔ ارشاد نبوی ہے :
(( مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِہٖ،وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْہُ)) [1]
’’ میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کرنے والی ہے۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی کام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو ۔ تواس حقیقت کو جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ دین میں کسی قسم کی کمی بیشی ، یا نئے نئے کام ایجاد کرنے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ، ورنہ نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( معاذ اللہ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اولیں ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے !
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’مَنِ ابْتَدَعَ فِیْ الْإِسْلاَمِ بِدْعَۃً یَرَاہَا حَسَنَۃً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلي اللّٰه عليه وسلم خَانَ الرِّسَالَۃَ،اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی{الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ
[1] حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی،ص103