کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 583
بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جیسا کہ آج کل اس سلسلے میں ہرزہ سرائی کی جاتی ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسلام نے خواتین کے تحفظ کیلئے اصول و ضوابط مقرر کئے ہیںاور جس طرح اسلام نے خواتین کے حقوق کی پاسداری کی ہے ، اس طرح کسی اور دین میں نہیں کیا گیا اور اگر دورِ جاہلیت کی عورت اور خاتونِ اسلام کے مابین مقارنہ کیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے ۔ ہم دور کیوں جائیں ، آج بھی جن ملکوں میں حقوق نسواں کی بات کی جاتی ہے اور جہاں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے وہاں عورت کی حالت کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی قدر ومنزلت کیا ہے ! اس کی قیمت تو راستے پر گری ہوئی چیز سے بھی زیادہ نہیں۔اور جو شخص جب چاہے ، جہاں چاہے اسے اپنے دامِ فریب میں پھنسا لیتا ہے ۔ جبکہ مسلم معاشرے میں بسنے والی با پردہ اور شریف خاتون کی زندگی کو سامنے رکھ لیا جائے تو دونوں کی زندگیوں میں نمایاں فرق معلوم ہو جائے گا ۔ اُس کی زندگی ذلت وخواری کی زندگی اوراِس کی زندگی شریفانہ ، باعزت اورپر وقار زندگی ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر کئی احادیث میں عورتوں کے حقوق کی تاکید فرمائی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ،فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ،وَإِنَّ أَعْوَجَ مَا فِیْ الضِّلَعِ أَعْلَاہُ،فَإِنْ ذَہَبْتَ تُقِیْمُہُ کَسَرْتَہُ،وَإِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ [1])) ’’تم عورتوں کے متعلق اچھے سلوک کی میری وصیت قبول کرو ، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے ، اگر آپ اسے سیدھا کرنا چاہیں گے تو اسے توڑ ڈالیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں گے تو اس کا ٹیڑھا پن بدستور باقی رہے گا ، لہٰذا تم عورتوں سے اچھا برتاؤ ہی کیا کرو ۔ ‘‘ (۸) خاوند بیوی کے بعض حقوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے عمومی حقوق کی تاکید کرنے کے بعد خاص طور پر خاوند بیوی کے بعض حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا : (( وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ أَن لَّا یُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَہُوْنَہُ،فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِکَ فَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ،وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)) ’’ اور تمھارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرو ۔ اگر وہ ایسا
[1] صحیح البخاری:5185و 5186،صحیح مسلم:1468