کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 582
سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان میں سے عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا سود ختم کیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر داعی کو اپنی دعوت پر سب سے پہلے خود عمل کرکے لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے ، اس سے اس کی دعوت زیادہ مؤثرہوگی اور دوسرے لوگ اسے جلدی قبول کریں گے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ }[1]
’’ کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو ؟ کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ! ‘‘
نیز فرمایا : {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ٭ کَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللّٰہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ }[2]
’’ اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ؟یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہیں کرتے ۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( …رَأَیْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِیْ رِجَالًا تُقْرَضُ أَلْسِنَتُہُمْ وَشِفَاہُہُمْ بِمَقَارِیْضَ مِنْ نَّارٍ ، فَقُلْتُ : یَا جِبْرِیْلُ ، مَنْ ہٰؤُلَائِ ؟ قَالَ: ہٰؤُلَائِ خُطَبَائُ أُمَّتِکَ یَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَہُمْ وَہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ،أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ)) [3]
’’ میں نے شبِ معراج میں دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ان کے ہونٹ آتش ِ جہنم کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا : جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انھوں نے کہا : یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ۔ کیا انھیں عقل نہیں آتی ؟ ‘‘
(۷) عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبۂ حجۃ الوداع میں حقوقِ نسواں کے متعلق خاص طور پر تاکید فرمائی اور عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے خواتین کو ان کے
[1] البقرۃ2 :44
[2] الصف61 :3-2
[3] أحمد:120/3و180بإسناد حسن