کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 580
اصل مال تمھارا ہی ہے ، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ ‘‘
لہٰذا سودی لین دین سے سچی توبہ کرتے ہوئے اسے فورا چھوڑ دیں اور نہ کسی شخص یا کسی بنک سے سود پر قرضہ لیں ‘ خواہ اپنی ضروریات کیلئے ہو یا تجارتی مقاصد کیلئے ہو ‘ اور نہ کسی کو سود پر قرضہ دیں اور نہ ہی کسی بنک میں فکس منافع پر رقم جمع کرائیں کیونکہ یہ بھی سود ہی کی ایک شکل ہے ۔
سود کتنا بڑا گناہ ہے ! اس کا اندازہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کر سکتے ہیں :
(( اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا،أَیْسَرُہُمَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ [1]))
’’ سود میں ستر گناہ ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی آدمی اپنی ماں سے نکاح کر لے ۔ ‘‘
اور دوسری روایت میں ہے :
(( اَلرِّبَا اِثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَابًا أَدْنَاہَا مِثْلُ إِتْیَانِ الرَّجُلِ أُمَّہُ …[2]))
’’ سود کے بہتر دروازے ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن حنظلۃ الراہب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( دِرْہَمُ رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ سِتَّۃٍ وَّثَلَاثِیْنَ زَنْیَۃً[3]))
’’سود کی حرمت کو جانتے ہوئے اس کا ایک درہم کھانا اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔ ‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب بیان فرمایا ۔ اس میں ہے کہ :
’’ ۔۔۔۔۔۔جبریل علیہ السلام نے کہا : آگے چلو تو ہم آگے چلے گئے حتی کہ ہم خون کی ایک نہر پر پہنچ گئے۔ ایک آدمی اس کے اندر کھڑا ہوا تھا اور دوسرا اس کے کنارے پر۔ کنارے پر کھڑے ہوئے آدمی کے سامنے ایک پتھر پڑا ہوا تھا ، اندر کھڑا ہوا آدمی جب باہر نکلنے کی کوشش کرتا تو کنارے پر کھڑا ہوا آدمی وہ پتھر اس کے منہ پر دے مارتا اور اسے اس کی جگہ پر واپس لوٹا دیتا۔ وہ بار بار ایسا کر رہے تھے۔میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا:آگے چلو تو ہم آگے چلے گئے…پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ …جسے آپ نے خون کی نہر میں دیکھا تھا وہ سود خور تھا…‘‘ [4]
[1] سنن ابن ماجہ:2274وصححہ الألبانی
[2] الطبرانی عن البراء صحیح الجامع للألبانی:3537
[3] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :1033
[4] صحیح البخاری