کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 577
طور پر قبضہ کرنا حرام ہے۔ اللہ رب العزت کافرمان ہے : {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَ تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ}[1] ’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو (تو ٹھیک ہے ۔) ‘‘ نیز فرمایا:{وَلاَ تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوا فَرِیْقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُوْنَ}[2] ’’ اور ایک دوسرے کا مال نا حق طریقے سے نہ کھایا کرو اور نہ ہی حاکموں ( یا قاضیوں)کو رشوت دے کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو ۔ ‘‘ ان دونوںآیات میں (بِالْبَاطِلِ) یعنی ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا گیا ہے اور اس میں ہر ناجائز اور ناحق طریقہ شامل ہے مثلا چوری کرنا ، کسی کا مال غصب کرنا ، خرید وفروخت میں دھوکہ اور فریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سود کھانا ، امانت میں خیانت کرنا ، جوے بازی کرنا اور حرام چیزوں کی تجارت کرنا وغیرہ ۔ دوسری آیت میں خاص طور پر حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا مال ناجائز طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ اس دور میں یہ چیز عام ہے۔چنانچہ تھانوں میں پولیس کو رشوت دے کر جھوٹے کیس درج کروا لئے جاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو نہ صرف پریشان کیا جاتا بلکہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے اور گواہوں ، وکیلوں اور ججوں کو رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کرو ا لیا جاتاہے اور یہ سب کچھ کسی شریف آدمی کا مال ہتھیانے یا اس کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کیلئے ہی کیا جاتا ہے ۔ فإلی اللّٰه المشتکی ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰه اور مال کی حرمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مال چرانے والے شخص کیلئے بہت سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوا أَیْْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}[3] ’’ اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو ، یہ بدلہ ہے اس کا جو انھوں نے کیا اورعذاب ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
[1] النساء4 : 29 [2] البقرۃ 2:188 [3] المائدۃ 5: 38