کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 57
صَوْتُہُ وَاشْتَدَّ غَضَبُہُ حَتّٰی کَأَنَّہُ مُنْذِرُ جَیْشٍ یَقُولُ صَبَّحَکُمْ وَمَسَّاکُمْ[1] ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح جوشیلے انداز میں خطبہ ارشاد فرماتے تھے جیسا کہ آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہوں جس سے ڈرانے والا کہتا ہے کہ دشمن تم پر صبح کے وقت حملہ ہو گا اور شام کے وقت ۔ ‘‘ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ خطیب کے لیے مستحب ہے کہ وہ موضوع اورموقع کی مناسبت سے بات کو زوردار انداز میں بیان کرے اور اس میں ترغیب وترہیب کے پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھے اور ممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انداز بیان کسی بہت بڑے حادثہ سے ڈرانے اور متنبہ کرنے کے لیے ہو۔‘‘[2] اور علامہ آبی فرماتے ہیں: وہکذا تکون صفۃ الوعظ مطابقۃ للذی متکلم فیہ حتی لا یأتی بشیٔ ضدہ[3] ’’کہ موقع محل کے مطابق خطاب اور بیان ایسا ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز مناسبت کے خلاف نہ ہو۔‘‘ یعنی ترغیب میں انداز نرم اور ترہیب میں گرم ہونا چاہئے۔ عصا یا قوس پر ٹیک لگانا حضرت حکم بن حزن الکلفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمیں اس وفد میں ساتواں یا نواں شخص تھا ۔ ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے لیے بھلائی کی دعا فرمائیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے کچھ کھجوریں منگوائیں۔اس وقت حالات اتنے زیادہ بہتر نہیں تھے۔ہم کئی دن تک وہیں رہے حتی کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرنے کا موقعہ بھی ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصا (لاٹھی) یا کمان پر ٹیک لگا کر (یعنی ہاتھ میں لے کر)کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان فرمائی اور بہت ہی مختصر ،جامع ،پاکیزہ اور مبارک کلمات میں وعظ فرمایااور پھر فرمایا: ’’ اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّکُمْ لَنْ تُطِیْقُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا کُلَّ مَا اُمِرْتُمْ بِہٖ وَلٰکِنْ سَدِّدُوْا وَاَبْشِرُوْا‘‘[4] اور امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] صحیح مسلم:کتاب الجمعہ:592/2 [2] شرح النووی:155/6 [3] اکمال الاکمال المعلم:22-21/3 [4] سنن أبي داؤد:240/1