کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 561
’’ اب تم کھا سکتے ہو ، ( دورانِ سفر کھانے کیلئے ) زادِ راہ بھی لے سکتے ہو اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو ۔ ‘‘
اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
(( مَنْ ضَحّٰی مِنْکُمْ فَلاَ یُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَۃٍ فِی بَیْتِہٖ مِنْہُ شَیْیٌٔ))
’’ تم میں سے جو شخص قربانی کرے اس کے گھر میں تین دن کے بعد گوشت نہیں رہنا چاہئے ۔ ‘‘
اِس کے بعد جب اگلا سال آیا تو لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم اِس سال بھی اُسی طرح کریں جیسا کہ گذشتہ سال کیا تھا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( کُلُوْا وَأَطْعِمُوْا وَادَّخِرُوْا فَإِنَّ ذَلِکَ الْعَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَہْدٌ،فَأَرَدتُّ أَنْ تُعِیْنُوْا فِیْہَا[1]))
’’ اب تم خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرسکتے ہو ۔ کیونکہ گذشتہ سال لوگ تنگ حال تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ تم ( باقی ماندہ گوشت کے ساتھ ) ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ ‘‘
4۔ قربانی کی کھالیں :
جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا درست نہیں ہے اسی طرح قربانی کی کھالیں فروخت کرکے ان کی قیمت اپنے مصرف میں لانا بھی جائز نہیں۔ یا تو انھیں اپنے استعمال میں لایا جائے یا صدقہ کردیا جائے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے پاس رہ کر نگرانی کروں اور ان کے گوشت ، ان کی کھالیں اور ان کی جھولیں صدقہ کردوں اور ان میں سے کوئی چیز قصاب کو بطور مزدوری نہ دوں ۔ ‘‘[2]
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِیَتِہٖ فَلَا أُضْحِیَۃَ لَہُ[3]))
’’ جو شخص اپنی قربانی کی کھال کو بیچے تو اس کی قربانی نہیں ۔ ‘‘
5۔قربانی کے ایام : قربانی کے چار ایام ہیں۔ عید کا دن اور اس کے بعد مزید تین دن (۱۱،۱۲، ۱۳) جنھیں ایام ِ تشریق کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا ان چار ایام میں سے کسی بھی روز قربانی کر سکتے ہیں ۔ [4]
[1] صحیح البخاری:5569،صحیح مسلم:1974
[2] صحیح البخاری:1717،صحیح مسلم :1317
[3] رواہ الحاکم ۔وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1088
[4] زاد المعاد:319/2 وفتاوی اللجنۃ الدائمۃ:406/8