کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 560
گردنوں پر پاؤں رکھا اور ’ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ أَکْبَر ‘ پڑھ کرانھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کر دیا ۔ ‘‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی ٹانگیں سیاہ ہوں ، پیٹ بھی سیاہ رنگ کا ہو اور آنکھوں کا ارد گرد بھی سیاہ ہو ۔ چنانچہ اسے لایا گیا تاکہ آپ اسے قربان کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : (( ہَلُمِّی الْمِدْیَۃَ )) ’’ چھری لے آؤ ۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا :(( اِشْحَذِیْہَا بِحَجَرٍ)) ’’ اِس کو کسی پتھر کے ساتھ تیز کردو ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب چھری تیز کردی تو آپ نے اسے ہاتھ میں لیا ، مینڈھے کو پکڑا اور اسے ذبح کرتے ہوئے فرمایا : (( بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ،وَمِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ )) [1] ’’ اللہ کے نام کے ساتھ ، ا ے اللہ ! محمد ، آل محمد اور امت ِ محمد کی طرف سے قبول فرما ۔ ‘‘ اِس کے بعد آپ نے اسے قربان کردیا ۔ 3۔قربانی کے جانور کا گوشت خود بھی کھائیں ، اپنے رشتہ داروں اور گھر میں آنے جانے والوں کو اور اسی طرح فقراء ومساکین کو بھی کھلائیں ۔ ارشاد باری ہے :{ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ}[2] ’’ پھر تم خود بھی ان ( قربانیوں کے گوشت سے ) کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ ۔ ‘‘ اسی طرح فرمایا : { فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ }[3] ’’ اس سے خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں اور سوال کرنے والے مساکین کو بھی کھلاؤ۔ ‘‘ ان آیاتِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے علمائے کرام قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک حصہ اپنے لئے ، دوسرا رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کیلئے اور تیسرا فقراء ومساکین کیلئے۔ یاد رہے کہ اپنے حصے کا گوشت ذخیرہ کرنا بھی درست ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اِس سے منع کیا تھا پھر اِس کی اجازت دے دی تھی۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کردیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : (( کُلُوْا وَتَزَوَّدُوْا وَادَّخِرُوْا)) [4]
[1] صحیح مسلم:1967 [2] الحج22:28 [3] الحج22 :36 [4] صحیح مسلم:1972