کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 558
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں قربانی کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، ابھی آپ نمازِ عید سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ نے ان جانوروں کا گوشت دیکھا جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی قربان کر دیا گیا تھا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( مَنْ کَانَ ذَبَحَ أُضْحِیَتَہُ قَبْلَ أَنْ یُّصَلِّیَ ۔ أَوْ نُصَلِّیَ ۔ فَلْیَذْبَحْ مَکَانَہَا أُخْرَی،وَمَنْ کَانَ لَمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاسْمِ اللّٰہِ)) [1] ’’ جس شخص نے قربانی کا جانور نمازِ عید سے پہلے ہی ذبح کردیا تھا وہ اُس کی جگہ اور جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا تھا وہ ’’ بسم اللّٰه ‘‘پڑھ کر ذبح کردے ۔ ‘‘ اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ قربانی کیلئے جو جانور آپ نے خاص کر رکھا ہے یا جو جانور آپ آج ہی خرید کر قربان کریں گے وہ موٹا تازہ ہو اور بے عیب ہو ۔ ابو امامہ بن سہل بیان کرتے ہیں کہ (کُنَّا نُسَمِّنُ الْأضْحِیَۃَ بِالْمَدِیْنَۃِ،وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ یُسَمِّنُوْنَ ) [2] ’’ ہم مدینہ میں قربانی کے جانور کو ( خوب کھلا پلا کر ) موٹا کرتے تھے اور اسی طرح عام مسلمان بھی قربانی کے جانوروں کو موٹا کرتے تھے ۔ ‘‘ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَرْبَعٌ لَا تَجُوْزُ فِی الْأضَاحِیْ:اَلْعَوْرَائُ بَیِّنٌ عَوَرُہَا،وَالْمَرِیْضَۃُ بَیِّنٌ مَرَضُہَا، وَالْعَرْجَائُ بَیِّنٌ ظَلْعُہَا،وَالْکَسِیْرُ الَّتِی َلا تُنْقِیْ)) [3] ’’ قربانیوں میں چار قسم کے جانور جائز نہیں : وہ جانور جو بھینگا ہو اور اس کا بھینگا پن بالکل واضح ہو ۔ وہ جانور جو مریض ہو اور اس کی بیماری بالکل عیاں ہو۔ وہ جانور جو لنگڑا ہو اور اس کا لنگڑا پن بالکل نمایاں ہو ۔اور وہ انتہائی کمزور ولاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔ ‘‘ لہٰذااُس جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں جس میں ان عیبوں میں سے کوئی عیب پایا جاتا ہو ۔اسی طرح نہ کان کٹا ہو اور نہ ہی سینگ ٹوٹا ہو ۔ تاہم جانور کا خصّی ہونا عیب نہیں ہے ۔ عزیزان گرامی ! اِن بنیادی باتوں کے بعد اب قربانی کے چند آداب بھی جان لیجئے جن کا قربانی میں لحاظ
[1] صحیح البخاری 985، صحیح مسلم :1960 [2] صحیح البخاری : کتاب الأضاحی باب أضحیۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بکبشین أقرنین [3] سنن أبی داؤد:2802،سنن الترمذی:1497وصححہ الألبانی