کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 556
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر منیٰ کو چلے گئے جہاں جمرات کے قریب انھوں نے اپنے اِس فرمانبردار بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ تب چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کی گردن پر چھری رکھ رہا ہے ! عین اُسی گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکار آئی:{یَا إِبْرَاہِیْمُ.قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا}
’’ اے ابراہیم ! آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔ ‘‘
مالکِ کائنات نے اپنے اِس پیغمبر کے سچے جذبۂ اطاعت وفرمانبرداری کی تصدیق کردی اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے بدلے میں اس نے ایک مینڈھا بھیج دیا {وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ} جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا ۔
یہ وہ عظیم قربانی ہے جس پر ہر سال لاکھوں مسلمان عمل کرکے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اور ہم پچھلے خطبۂ جمعہ میں ذکر کرچکے ہیں کہ قربانی کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے جس پر آپ نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ہر سال عمل فرمایا ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے شخص کو تنبیہ بھی فرمائی کہ(( مَنْ وَجَدَ سَعَۃً لِأَن یَّضَحِّیَ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَحْضُرْ مُصَلَّا نَا)) [1]
’’ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘
لہٰذا جو شخص قربانی کی طاقت رکھتا ہو اسے قربانی ضرور کرنی چاہئے ۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ارشاد فرمایا تھا :
(( یَا أَ یُّہَا النَّاسُ إِنَّ عَلٰی کُلِّ أَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَۃ … [2]))
’’ اے لوگو ! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ضروری ہے ۔ ‘‘
لہٰذا اگر استطاعت ہو تو قربانی نہیں چھوڑنی چاہئے ۔
تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ تمام عبادات کی طرح قربانی میں بھی اخلاصِ نیت از حد ضروری ہے ۔ لہٰذا خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے جانور قربان کریں ۔ ریا کاری ہو یا تعریف سننے کی خواہش ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ فلاں نے بھی قربانی کی ہے تویہ دونوں چیزیں قربانی کے ثواب کو ضائع وبرباد کردیتی ہیں۔
[1] رواہ الحاکم وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1087
[2] سنن أبی داؤد :2788،سنن الترمذی:1518،سنن ابن ماجہ:3125۔وصححہ الألبانی