کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 548
جس نے ذبح نہیں کیا تھا وہ ’’ بسم اللّٰه ‘‘پڑھ کر ذبح کردے۔ ‘‘
اور حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خالو نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تِلْکَ شَاۃُ لَحْمٍ)) ’’ وہ تو صرف گوشت کی خاطر( ذبح شدہ )بکری ہے۔ ‘‘ (یعنی قربانی نہیں ہے ) تو انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک سال کا بکرا ہے ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( ضَحِّ بِہَا وَلاَ تَصْلُحُ لِغَیْرِکَ)) ’’ تم اسی کو قربان کر دو اور یہ آپ کے علاوہ کسی اور کیلئے جائز نہیں۔ ‘‘
اس کے بعد آپ نے فرمایا :
(( مَنْ ضَحّٰی قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِہٖ،وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہُ وَأَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنَ )) [1]
’’ جو شخص نمازِ عید سے پہلے قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے لئے جانور ذبح کرتا ہے۔ اور جو شخص نمازِ عید کے بعد قربانی کرتا ہے تو اس کی قربانی مکمل ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔ ‘‘
مسئلہ نمبر 6 : ایک بکرا یا بکری ، یا ایک بھیڑ یا دنبہ تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جاتا ہے۔ اس لئے گھر کے ہر فرد کی جانب سے الگ الگ جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔بلکہ اگر نیت صرف یہ ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ فلاں نے اپنی طرف سے الگ قربانی کی ہے ، یا صرف اس لئے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ میں نے اپنی طرف سے الگ قربانی کی ہے تویہ ریاکاری ہے جو حرام ہے۔
عطاء بن یساررحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ایوب الأنصاری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قربانیاں کس طرح ہوتی تھیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا :
(کَانَ الرَّجُلُ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَعَنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ فَیَأْکُلُونَ وَیُطْعِمُونَ حَتّٰی تَبَاہَی النَّاسُ فَصَارَتْ کَمَا تَرَی) [2]
’’ ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربان کرتا تھا ، پھر وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ ( پھر اسی طرح بدستور ہوتا رہا ) یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے اور اب جو لوگوں کی حالت ہے وہ آپ خود دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘
لہٰذا ایک دوسرے پر فخر کرنے کیلئے نہیں بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے قربانی کرنی چاہئے۔
[1] صحیح البخاری:5556،صحیح مسلم:1961
[2] سنن الترمذی:1505۔ وصححہ الألبانی