کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 544
امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں :
(وَالْعَمَلُ عَلٰی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأضْحِیَۃَ لَیْسَتْ وَاجِبَۃً،وَلٰکِنَّہَا سُنَّۃٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یُسْتَحَبُّ أَنْ یُّعْمَلَ بِہَا)
’’ اسی حدیث کی بناء پر اہلِ علم کے نزدیک قربانی واجب نہیں ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے جس پر عمل کرنا مستحب ہے۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(أَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ عَشْرَ سِنِیْنَ یُضَحِّی کُلَّ سَنَۃٍ) [1]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے۔ اِس دوران آپ ہر سال قربانی کرتے رہے۔ ‘‘
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ قربانی واجب نہیں ، تاہم جو شخص اس کی استطاعت رکھتا ہو وہ قربانی ضرور کرے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( مَنْ وَجَدَ سَعَۃً لِأَنْ یُضَحِّیَ فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَحْضُرْ مُصَلَّانَا[2]))
’’ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ارشاد فرمایا تھا :
(( یَا أَ یُّہَا النَّاسُ إِنَّ عَلٰی کُلِّ أَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَۃ… [3]))
’’ اے لوگو ! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ضروری ہے۔ ‘‘
لہٰذا اگر استطاعت ہو تو قربانی نہیں چھوڑنی چاہئے۔
بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ قربانی صرف حجاج کیلئے ہے باقی لوگوں کیلئے نہیں ہے۔ جبکہ ہم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا جو قول ابھی ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ قربانی صرف حجاج کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کیلئے ہے۔ حجاج تو حج کے واجبات ادا کرنے کیلئے قربانی کرتے ہیں اورسنتِ ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ جبکہ دیگر مسلمان پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
[1] سنن الترمذی:1507وقال : حدیث حسن
[2] رواہ الحاکم وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1087
[3] سنن أبی داؤد:2788،سنن الترمذی:1518،سنن ابن ماجہ:3125وصححہ الألبانی