کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 541
إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ یہ عرش باری تعالیٰ کے ارد گرد گھومتی ہیں اور ان سے شہد کی مکھیوں کی آواز کی طرح ایک آواز آتی ہے جس میں وہ اپنے پڑھنے والے کاتذکرہ کرتی ہیں۔ تو کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کاتذکرہ کرنے والا بنے ؟ ‘‘
9۔ تسبیحات میں سے ہر ایک صدقہ ہے
جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگوں نے آپ سے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(( ذَہَبَ أَہْلُ الدُّثُورِ بِالْأجُورِ، یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی، وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ،وَیَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِہِمْ) )
یعنی ’’ مال والے لوگ اجر وثواب لے گئے ، وہ ہماری طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں ، روزے بھی رکھتے ہیں ، اور اپنے بچے ہوئے مالوں کے ساتھ صدقہ بھی کرتے ہیں ‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( أَوَ لَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مَا تَصَدَّقُونَ؟إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃً،وَکُلِّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃً،وَکُلِّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃً،وَکُلِّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃً،وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَۃٌ،وَنَہْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَۃٌ …[1]))
’’ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھی صدقہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنا دیا ؟ بے شک ہر (سبحان اللّٰه ) صدقہ ہے۔ ہر (اللّٰه أکبر ) صدقہ ہے اور ہر (الحمد اللّٰه ) صدقہ ہے۔ اور ہر ( لا إلہ إلا اللّٰه ) صدقہ ہے۔نیکی کا ہرحکم صدقہ ہے اور ہر برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔۔۔۔۔‘‘
اِن کلماتِ مبارکہ کے اِن عظیم فوائد کے پیش نظر ہمیں عام طور پر بھی اور خاص طور پر اِن ایام میں بھی ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہئے۔
خاص طور تکبیرات کا تو اور زیادہ اہتمام کرنا چاہئے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :(وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُوہُرَیْرَۃَ یَخْرُجَانِ إِلَی السُّوْقِ فِیْ أَیَّامِ الْعَشْرِ،یُکَبِّرَانِ وَیُکَبِّرُ النَّاسُ بِتَکْبِیْرِہِمَا) [2]
’’حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ( ماہِ ذو الحجہ کے ) ان دس دنوں میں بازار کونکل جاتے اور تکبیر کہتے رہتے۔ پھردوسرے لوگ بھی انکی تکبیر سن کر تکبیرات پڑھتے۔‘‘
ان ایام میں عموما جہری تکبیریں کہنا اور آواز زیادہ سے زیادہ بلند کرنا مستحب ہے۔ خصوصا یومِ عرفہ کی نمازِ فجر
[1] صحیح مسلم:1006
[2] صحیح البخاری:العیدین باب فضل العمل فی أیام التشریق