کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 536
بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ،وَ َما یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ،وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا،وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِہَا،وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہُ)) [1]
’’ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوںاور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے ( یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوںجس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوںجس کے ذریعے وہ چلتا ہے۔ (یعنی اس کے ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں ) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں۔ اور اگر وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں یقینا اسے پناہ دیتا ہوں۔‘‘
(۴) اﷲکا ذکر کرنا :
اِن مبارک ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہئے۔
حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ أیَّامٍ أعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أحَبُّ إلَیْہِ الْعَمَلُ فِیْھِنَّ مِنْ ھَذِہِ الأیَّامِ الْْعَشْرِ ، فَأکْثِرُوْا فِیْھِنَّ مِنَ التَّھْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ[2]))
’’اﷲکے نزدیک نہایت عظمت والے اور محبوب دن ایامِ عشرۂ ذی الحجہ کے مقابلے میں کوئی دن نہیں ہیں‘ اس لئے ان ایام میں لاإلہ إلَّا اللّٰه ‘ اللّٰه أکبر اورالحمد اللّٰه جیسے اذکار کثرت سے کیا کرو۔‘‘
اور ذکر اللہ کا اِس سے بڑا فائدہ کیا ہو گا کہ اس سے اللہ تعالیٰٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ،وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِیْ،فَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ
[1] صحیح البخاری:6502
[2] رواہ أحمد:323/9و296/10وقال الأرناؤط : صحیح