کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 535
بیماری کے عارضہ یا سفر وغیرہ کی بناء پر روزہ نہیں رکھا۔ اور ان کا یہ کہنا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ایام میں روزہ کی حالت میں نہیں دیکھا تو ان کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ پھر امام نووی رحمہ اللہ نے ابو داؤد کی وہی حدیث بطور دلیل ذکر کی ہے جس کا تذکرہ ہم ابھی کر چکے ہیں۔ ‘‘[1] جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس قول کے بارے میں کہنا ہے کہ شاید یہ اِس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کسی عمل کو پسند تو کرتے تھے لیکن اُس کی فرضیت کے خوف کی وجہ سے اسے ترک کردیتے تھے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے بھی فرضیت کے اندیشہ کی بناء پر چھوڑ دیا ہو۔[2] بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی جو بھی تاویل ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمومی ارشاد ہے کہ اِن ایام میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے تو اُس میں روزہ بھی آتا ہے اور روزہ کے فضائل متعدد احادیث سے ثابت ہیں۔ واضح رہے کہ ایامِ عشرۂ ذوالحجہ میں سے یومِ عرفہ کے روزے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : (( صَوْمُ یَوْمِ عَرَفَۃَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الّتِیْ قَبْلَہُ وَالّتِیْ بَعْدَہُ )) [3] ’’ یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے اﷲسے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال اور آنے والے ایک سال کے گناہوں کے لئے کفارہ بن جائے گا۔ ‘‘ لہٰذا نو ذو الحجہ (یعنی یومِ عرفہ )کا روزہ رکھنا سنت ہے ۔ (۳) نماز پڑھنا : نماز سب سے زیادہ عظمت اور فضیلت والا عمل ہے ‘ اس لئے اسے پورا سال وقت کی پابندی اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا تمام مسلمانوں پرفرض ہے۔خصوصا ان ایام میں فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کثرت سے نوافل پڑھنا اور انکا اہتمام بھی کرنا چاہئے کیونکہ نوافل اﷲ سے قریب کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ:مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ،وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ
[1] شرح النووی لصحیح مسلم:58/4 [2] فتح الباری:460/2 [3] صحیح مسلم:1162