کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 534
حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا ِمنْ عَبْدٍ یَصُوْمُ یَوْمًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إلَّا بَاعَدَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ الْیَوْمِ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا)) [1]
’’جو شخص اللہ کی راہ میں ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے۔‘‘
یہ روزہ کی عمومی فضیلت ہے اور جہاں تک عشرۂ ذو الحجہ میں روزے رکھنے کا تعلق ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سے کسی سے مروی ہے کہ
(کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَصُوْمُ تِسْعَ ذِی الْحِجَّۃِ،وَیَوْمَ عَاشُوْرَائَ،وَثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ) [2]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھتے تھے ، اسی طرح یوم ِ عاشوراء کا اور ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔‘‘
اِس بناء پر عشرۂ ذو الحجہ یعنی اِس ماہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
اور جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ہے کہ
(مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم صَائِمًا فِی الْعَشْرِ قَطُّ) [3]
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرۂ ذو الحجہ میں کبھی روزے کی حالت میں نہیں دیکھا۔ ‘‘
تو اِس کے بارے میں امام نووی کہتے ہیں :
’’ اِس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ عشرۂ ذوالحجہ یعنی ذو الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا مکروہ ہے ! جبکہ علماء اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ ان نو ایام کا روزہ رکھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے بلکہ یہ تو نہایت درجہ مستحب ہے خاص طور پر نو ذو الحجہ کا روزہ جس کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہیں۔ اِس کے علاوہ صحیح بخاری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ ’’ ان ایام میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کو باقی تمام ایام کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہوتا ہے ۔‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا ، اِس کا یہ معنی ہے کہ کسی
[1] صحیح البخاری:2840،صحیح مسلم:1153
[2] سنن أبی داؤد:الصیام باب فی صوم العشر:2437 وصححہ الألبانی
[3] صحیح مسلم:1176