کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 525
جاہلیت کے دور میں کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عبور کرکے عرفات میں پہنچ گئے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کیلئے ایک خیمہ نمرۃ میں لگا دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میں اتر گئے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے القصواء کو تیار کرنے کا حکم دیا۔ لہٰذا حسبِ حکم اس پر کجاوا رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہو کر وادی کے درمیان پہنچے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا…
[ عید الأضحی کے بعد اس خطبہ کا تفصیل سے تذکرہ کیا جائے گا ، ان شاء اللہ تعالیٰ ]
اس کے بعد ( مؤذن نے ) اذان اور پھر اقامت کہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی ، پھر دوسری اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور نماز ( نفل وغیرہ ) نہیں پڑھی۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورای پر سوار ہوئے اور ( عرفات میں ) جائے وقوف تک پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی (القصواء) کا پیٹ پتھروں کی طرف اور پا پیادہ چلنے والوں کو اپنے سامنے کر لیا اور قبلہ رخ ہو کر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ آفتاب تک وقوف فرمایا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھالیا اور مزدلفہ کی طرف اس حالت میں روانہ ہوئے کہ آپ نے اپنی اونٹنی ( القصواء ) کی نکیل کو شدت سے کھینچا ہوا تھا حتی تک کہ اس کا سر کجاوے کے اس حصہ تک جا پہنچا جہاں ایک سوار تھک کر اپنے پاؤں رکھ لیتاہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے :
(( أَیُّہَا النَّاسُ، اَلسَّکِیْنَۃَ السَّکِیْنَۃَ )) ’’اے لوگو ! سکون واطمینان کے ساتھ چلو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ہموار زمین پر پہنچتے تو اپنی سواری کی نکیل ڈھیلی چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ ( کسی پہاڑ وغیرہ پر ) چڑھائی شروع کرتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ میں پہنچے تو وہاں آپ نے مغرب وعشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا کیں اور ان کے درمیان کوئی ( نفل ) نماز نہیں پڑھی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی اور جب واضح طور پر فجر کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان اور اقامت کے ساتھ نمازِ فجر ادا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم القصواء پر سوار ہوئے اور المشعر الحرام میں آ گئے جہاں آپ نے قبلہ رخ ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، اس کی بڑائی اور توحید بیان کی اورصبح کی روشنی پھیلنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدستور اسی حالت میں رہے۔ اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کو روانہ ہو گئے یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا جو کہ بہت ہی حسین وجمیل اور خوبصورت بالوں والے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم