کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 524
سال کیلئے ہے یا ہمیشہ کیلئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملا کر دو مرتبہ فرمایا : (( دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِیْ الْحَجِّ )) ’’ عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘ اور یہ ہمیشہ کیلئے ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر آئے ، انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا حلال ہو چکی ہیں اور انھوں نے رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگایا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر انھوں نے حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم نے ایسا نہیں کرنا تھا۔ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے میرے باپ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس کا حکم دیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں بیان کیا کرتے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ کیا تھا اس کی شکایت لے کر پہنچااور میں یہ چاہتا تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کا حکم دیا تھا اس کے بارے میں آپ کی رائے معلوم کر لوں۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتلایا کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کہا ہے کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( صَدَقَتْ،صَدَقَتْ،مَاذَا قُلْتَ حِیْنَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟))’’ اس نے سچ کہا ہے ، اس نے سچ کہا ہے اور بتاؤ تم نے جب اپنے اوپر حج فرض کر لیا تھا توکیا نیت کی تھی؟‘‘ میں نے گذارش کی : میں نے یوں کہا تھا کہ اے اللہ ! میں اس چیز کے ساتھ احرام کی نیت کرتا ہوں جس کے ساتھ تیرے رسول نے کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میرے ساتھ تو قربانی بھی ہے ( اور جس طرح میں حلال نہیں ہوا ) تم بھی حلال نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو قربانی کے جانور یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تھے ان کی تعداد ایک سو تھی۔ پھر تمام لوگ حلال ہو گئے اور انھوں نے بال چھوٹے کروا لئے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ قربانیاں تھیں۔ پھر جب یوم الترویۃ (آٹھ ذو الحج کا دن ) آیا تو تمام لوگ حج کی نیت کرکے منیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی سواری پر سوار ہو کر منیٰ میں پہنچے اور آپ نے وہاں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور ( نو ذو الحج کو ) فجر کی نمازیں پڑھیں۔ فجر کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ( عرفات میں پہنچ کر ) نمرۃ میں ان کیلئے ایک خیمہ لگا دیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے۔ قریش کو اس بارے میں یقین تھا کہ آپ ضرور المشعرالحرام میں وقوف فرمائیں گے جیسا کہ قریش