کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 523
تعریفیں ،نعمتیں اور بادشاہت تیرے لئے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ ‘‘
لوگوں نے بھی یہی تلبیہ پڑھنا شروع کردیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اس تلبیہ کا کوئی لفظ رد نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل یہ تلبیہ پڑھتے رہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم نے حج ہی کی نیت کی کیونکہ ہم عمرہ کو توجانتے ہی نہ تھے یہاں تک کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر ( پہلے ) تین چکر وں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار چکر آپ نے عام رفتار میں چلتے ہوئے پورے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر آئے اور آپ نے یہ آیت پڑھی : { وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلّٰی}اورآپ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دورکعت نماز ادا فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الکافرون اور سورۃ الإخلاص پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی طرف چلے گئے اور جب صفا کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :{إنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ} اور فرمایا : (( أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِہ)) ’’ میں بھی وہیں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔ ‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا سے آغاز کیا اور اس کے اوپر چڑھ گئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو دیکھ لیا تو اس کی طرف رخ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور بڑائی بیان کی اور آپ نے فرمایا :
(( لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ‘ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ‘وَھُوَ عَلٰی کُلّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ ‘ أنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الأحْزَابَ وَحْدَہُ ))
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران دعا مانگی۔ آپ نے تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کی طرف چل دئے یہاں تک کہ جب وادی کے درمیان آپ کے قدم ٹک گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑ پڑے حتی کہ جب چڑھائی شروع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام رفتار میں چلنے لگے یہاں تک کہ آپ مروہ پر پہنچ گئے۔ یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کیا جو آپ نے صفا پر کیا تھا اور جب آپ کا آخری چکر مروہ پر پورا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَوْ أَنِّیْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْہَدْیَ وَجَعَلْتُہَا عُمْرَۃً،فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ لَیْسَ مَعَہُ ہَدْیٌ فَلْیَحِلَّ ، وَلْیَجْعَلْہَا عُمْرَۃً ))
’’ مجھے اب جو بات معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور نہ لے کر آتا اور اسے عمرہ بنا لیتا۔ لہٰذا تم میں سے جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ حلال ہو جائے اور اسے عمرہ سمجھ لے۔ ‘‘
یہ سن کر حضرت سراقۃ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم صرف اس