کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 52
حرج نہیں۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً) بعض اشعار بھی دانائی کی باتوں پر مبنی ہوتے ہیں[1]لیکن سارا خطبہ شعروشاعری اور ترنم میں ادا کرنا معیوب ہے ۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے خطاب ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ ان کا یہ اسلوب نہیں تھا۔لہذا خطیب کو منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس مشاعرہ میں فرق ملحوظ رکھنا چاہئے اور سارا خطبہ یا وعظ موسیقی کے انداز میں ترنم کے ساتھ ارشاد فرمانے سے گریز کرنا چاہئے۔چنانچہ امام شافعی کا فرمان خطباء کے پیش نگاہ رہنا چاہئے۔ع ولو لا الشعر بالعلماء یزری لکنت الیوم أشعر من لبید ’’ اگر بکثرت شعر گوئی علماء کیلئے معیوب نہ ہوتی تو میں آج اس میں لبید سے بھی آگے ہوتا ‘‘ اسی طرح شرکیہ اور تہذیب و اخلاق کی سطح سے گرے ہوئے اشعار تو قطی طور پر منع ہیں ۔ غیر عربی زبان میں خطبہ :شیخ ابن باز رحمہ اللہ ، شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اور دیگر علماء کے نزدیک اگر سامعین کی زبان غیر عربی ہو تو انکی کی زبان میں خطبہ دینا جائز ہے (یعنی خطبۂ مسنونہ کے بعد باقی خطبہ) کیونکہ ارشادباری ہے : {وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْ مِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ}[2] ’’ہم نے ہرنبی کو اس کی قوم کی زبان میں ہی تبلیغ کا حکم دیا۔‘‘ تفصیل کیلئے ملا حظہ ہو:(الشامل،ص ۸۳) خاتمہ یہ خطبہ کا انتہائی اہم رکن ہے ۔خطیب کو چاہیے کہ پہلے خطبہ کے اختتام پر یا دوسرے خطبہ میں بیان کردہ موضوع کا خلاصہ بالاختصار بیان کرے تاکہ خطبہ کے اہداف ومقاصد کی تکمیل اور عناصر خطبہ کے فہم وادراک میں سہولت اور آسانی رہے لیکن یہ پہلے سے تیارشدہ منظم ومرتب ہونا چاہئے۔ انیس الخطباء میں ہے: ’’الخاتمۃ فی الحقیقۃ ہی الجامعۃ لہدف الخطبۃ فلیحرص الخطیب علی جمع شتات الخطبۃ فی ما تبقی لہ من الوقت إذ ما یقولہ فی النہایۃ ہو الباقی فی أذہان المستمعین‘‘[3] ’’خاتمہ درحقیقت خطبہ کا لب لباب اور خلاصہ ہوتا ہے اس لیے خطیب کو چاہئے کہ خطبہ کے آخری وقت میں
[1] صحیح البخاری :کتاب الادب ح 6145 [2] إبراہیم14 :4 [3] أنیس الخطباء:ص161