کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 513
3۔وقوفِ عرفہ کا وقت زوالِ شمس سے لے کر دس ذو الحج کی رات کو طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ اس دوران حاجی ایک گھڑی کیلئے بھی عرفات میں چلا جائے تو حج کا یہ رکن پورا ہو جاتا ہے۔ حضرت عروۃ بن مضرّس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا جب آپ مزدلفہ میں تھے اور صبح کی نماز کیلئے تیار ہو رہے تھے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں ( طی) کے دو پہاڑوں سے آیا ہوں ، میں نے اپنی سواری کو مشقت میں ڈالا اور اپنے آپ کو بہت تھکایا ، اللہ کی قسم ! میں نے (عرفات میں ) کوئی ریتلا مقام نہیں چھوڑا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو۔ تو کیا میرا حج درست ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( مَنْ شَہِدَ صَلَاتَنَا ہٰذِہٖ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتّٰی نَدْفَعَ،وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَۃَ قَبْلَ ذٰلِکَ لَیْلًا أَوْ نَہَارًا،فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّہُ وَقَضٰی تَفَثَہُ )) [1] ’’ جو شخص ہماری اس نماز میں حاضر ہوا اور اس نے ہمارے ساتھ وقوف کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے (منیٰ) کو چلے جائیں اور وہ اس سے پہلے رات کو یا دن کو کسی وقت عرفات میں وقوف کر چکا تھا تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس نے اپنے مناسک پورے کر لئے۔ ‘‘ نیز عرفات کی حدود میں جہاں بھی وقوف کرلیں کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَقَفْتُ ہٰہُنَا،وَعَرَفَۃُ کُلُّہَا مَوْقِفٌ)) [2] ’’ میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور پورا میدان ِعرفات وقوف کی جگہ ہے۔ ‘‘ 4۔ غروبِ شمس کے بعد عرفات سے انتہائی سکون کے ساتھ مزدلفہ کو روانہ ہو جائیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ یومِ عرفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفہ سے واپس لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سے سواریوں کو مارنے اور شدید ڈانٹنے کی آوازیں سنیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کوڑے کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (( أَیُّہَا النَّاسُ،عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ فَإِنَّ الْبِرَّ لَیْسَ بِالْإِیْضَاعِ)) [3] ’’ اے لوگو ! انتہائی سکون واطمینان کے ساتھ جاؤ کیونکہ نیکی جلدی کرنے میں نہیں ہے۔ ‘‘ 5۔یومِ عرفہ کو مغرب کی نماز عرفات میں نہیں بلکہ مزدلفہ میں پہنچ کر عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھیں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عرفات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے
[1] سنن الترمذی:891،سنن ابن ماجہ:3026۔ وصححہ الألبانی [2] صحیح مسلم:1218 [3] صحیح البخاری:1671