کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 511
اور فجر کی نمازیں پڑھائیں اوراس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کو روانہ ہوئے۔[1] یہی بات حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بھی طویل حدیث میں روایت کی ہے ۔[2] ۹/ ذو الحج ( یومِ عرفہ ) یومِ عرفہ انتہائی عظیم دن ہے ، اس دن عرفات کا وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوفِ عرفہ کو حج قرار دیا۔[3] اس دن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ یَّوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُّعْتِقَ اللّٰہُ فِیْہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ،وَإِنَّہُ لَیَدْنُوْ ثُمَّ یُبَاہِیْ بِہِمُ الْمَلَائِکَۃَ فَیَقُوْلُ :مَا أَرَادَ ہٰؤُلَائِ ؟ [4] )) ’’اللہ تعالیٰ عرفات کے دن سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور وہ قریب آکر ان پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے : یہ کیا چاہتے ہیں ؟ ‘‘ جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف فرمایا اور جب سورج غروب ہونے والا تھا توآپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا : اے بلال ! ذرا لوگوں کو خاموش کرکے میری طرف متوجہ کرو۔ چنانچہ انھوں نے لوگوں کو خاموش کرایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَعَاشِرَ النَّاسِ،أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ آنِفًا، فَأَقْرَأَنِیْ مِنْ رَبِّیْ السَّلَامَ، وَقَالَ:إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ غَفَرَ لِأَہْلِ عَرَفَاتَ،وَأَہْلِ الْمَشْعَرِ،وَضَمِنَ عَنْہُمُ التَّبِعَاتِ)) ’’ اے لوگوں کی جماعت ! میرے پاس ابھی جبریل علیہ السلام آئے تھے ، انھوں نے مجھے میرے رب کا سلام پہنچایااور کہا: بے شک اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرفات اور اہلِ مشعر کی مغفرت کردی ہے اور ان کے حقوق کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ ‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا یہ ہمارے لئے خاص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ہٰذَا لَکُمْ وَلِمَنْ أَتٰی مِنْ بَعْدِکُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ[5]))
[1] سنن الترمذی:879۔ وصححہ الألبانی [2] صحیح مسلم:1218 [3] سنن الترمذی:889، سنن ابن ماجہ:3015۔ وصححہ الألبانی [4] صحیح مسلم:1348 [5] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1151