کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 51
پر تنقید اور ہجوم سے گریز کیا جائے اور { اُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ}[1]کا اصولِ تبلیغ مد نظر رکھنا چاہئے ۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ( إِنَّ مِنْ أَفْرَی الْفری اَنْ یَّہْجُوَالشَّاعِرُ الْقَبِیْلَۃَ بِأَسْرِہَا) [2] ’’سب سے بڑا بہتان وافتراء یہ ہے کہ کوئی شاعر پورے قبیلے کی ہجو اور مذمت کرے۔‘‘ چنانچہ فن الدعوہ کے مولف لکھتے ہیں: ’’ لا بد أن یکون الداعی لبقا فی اختیار العبارۃ حتی یدخل القلوب ولا یثیر علیہ الشعب فإن الناس یغضبون لقبائلہم ویغضبون لشعوبہم ویغضبون لشرکائہم ویغضبون لمؤسساتہم ویغضبون لجمعیاتہم ‘‘[3] ’’خطیب اور داعی کو دل پر اثر کرنے والی عبارات کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ ایسے جملے یا عبارات نہ ہوں جو لوگوں کو اس کے خلاف کر دیں کیونکہ لوگ اپنے قبائل ، کاروباری شرکاء ، ادارے اور جمعیات کے خلاف کوئی بھی بات سننا گوارا نہیں کرتے۔‘‘ لہٰذا بغیر کسی کو نامزد کیے جرائم کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کرنی چاہئے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکیمانہ اسلوب تھا ( مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَفْعَلُونَ کَذَا وَکَذَا) اس سے نامزدگی بھی نہیں ہو گی اور صاحب خطا اپنی غلطی سے بھی آگاہ ہو جائے گا اور کوئی شر یا فتنہ بھی پیدا نہیں ہو گا۔ مولانا حالی مرحوم نے عصرحاضر کے خطباء ودعاۃ(الا ماشاء اللہ ) کی حالت زار پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا ہے۔ع مخالف کا اپنے اگر نام لیجئے تو ذکر اس کا ذلت و خواری سے کیجئے کبھی بھول کر طرح اس میں نہ دیجئے قیامت کو دیکھو گے اس کے نتیجے گناہوں سے ہوتے ہو گویا مبرا مخالف پہ کرتے ہو جب تم تبرا خطبہ میں اشعار پڑھنا خطبہ میں بطور استشہاد کوئی شعر پڑھنا یا ایسے اشعار جن میں حکمت اور دانائی کی باتیں ہیں پڑھنے میں کوئی
[1] النحل16:125 [2] الأدب المفرد،ص126،الصحیحہ الالبانی:402/2 [3] فن الدعوۃ،ص 25