کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 505
ذکر اور دعا میں آواز بلند کرنا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ }[1] ’’ اور اپنے رب کا ذکر کریں اپنے دل میں ، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ ، صبح اور شام اور اہلِ غفلت میں سے مت ہوں۔ ‘‘ اور فرمایا : { أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ }[2] ’’ تم اپنے رب سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی۔بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے تجاوز کریں۔ ‘‘ 4۔ ’’ بسم اللّٰه ،اللّٰه أکبر‘‘ کہہ کررکن ِ یمانی کا استلام کرنا بھی مسنون ہے۔ لہٰذا اگر بآسانی اسے ہاتھ لگا سکیں تو ٹھیک ہے ورنہ بغیر اشارہ کئے اور بوسہ دیئے وہاں سے گذر جائیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ الرُّکْنَ وَالْمَقَامَ یَاقُوْتَتَانِ مِنْ یَاقُوْتِ الْجَنَّۃِ،طَمَسَ اللّٰہُ نُوْرَہُمَا، وَلَوْ لَمْ یَطْمِسْ نُوْرَہُمَا لَأَضَائَ تَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ[3])) ’’بے شک رکن ( حجر اسود) اور مقام ( ابراہیم ) جنت کے قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے نور کردیا ہے۔ اگر وہ انہیں بے نور نہ کرتا تو وہ مشرق ومغرب کے درمیان پوری دنیا کو روشن کردیتے۔ ‘‘ 5۔ سات چکرمکمل کرکے مقامِ ابراہیم کے پیچھے اگر جگہ مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ مسجد حرام کے کسی حصے میں دو رکعات ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ’’الکافرون‘‘اور دوسری میں’’الاخلاص ‘‘ پڑھیں۔[4] پھر زمزم کا پانی پییں اور اپنے سر پر بہائیں ، اس کے بعد اگر ہو سکے تو حجر اسود کا استلام کریں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ ورنہ سیدھے صفا کی طرف چلے جائیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مسجد حرام میں داخل ہوئے، پھر آپ نے حجر اسود کا استلام کیا ، پھر اپنی دائیں سمت چل پڑے ، پہلے تین چکر وں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار چکر آپ نے عام رفتار میں پورے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر آئے اور آپ نے یہ آیت
[1] الأعراف7 :205 [2] الأعراف7 :55 [3] سنن الترمذی: 878 وصححہ الألبانی [4] صحیح مسلم:1218