کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 49
یختلفون ففیہم العالم وفیہم الجاہل وفیہم العامی وفیہم الآمر والوزیر فیکون الخطیب فیہم کالمتفرس۔‘‘[1] ’’خطبہ کا موضوع تیار کرنے اور بیان کرنے سے پہلے خطیب کو چاہئے کہ ہ سامعین کے احوال وطبقات کو پیش نظر رکھے۔ ان میں عالم بھی ہیں اور کم علم بھی ، عوام بھی ہیں اور امیر ووزیر بھی۔ لہذا خطیب کو ان کے مابین انتہائی بیدار مغز اور ذہین آدمی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔‘‘ نیز خطبہ کی تیاری کے وقت غیر مالوف اور غریب الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے بلکہ عام فہم اور سلیس عبارات اور جملے اختیار کئے جائیں۔ نیز موضوع کو سہل اور آسان بنانے کے لیے ضرب الامثال،صحیح اسلامی واقعات اور اقوال سلف بیان کیے جائیں۔نیز عربی عبارات کا صحیح تلفظ اور اعراب کا خصوصی خیال رکھا جائے اور مشکل الفاظ کے صحیح معانی ومفہوم کے لیے کتب لغت اور غریب الحدیث کی طرف رجوع کیا جائے۔اور سلف کی عادت مبارکہ تھی کہ وہ پردے اور طہارت کے مسائل بیان کرتے وقت بالکل صراحت کی بجائے اشاروں،کنایوں میں بات سمجھا دیا کرتے تے ۔ جیسا کہ امام ابن جوزی رحمہ اللہ آیت مبارکہ (وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا )کی تفسیر میں لکھتے ہیں (کا نوا اذا ذکرو الفروج کنوا عنھا ) [2]اور امام مالک رحمہ اللہ سے کسی نے دریافت کیا (عن مس الرفغ والشرج والعانۃ )أفی ذلک الوضوء؟ تو انھوں نے یہ الفاظ دہرائے بغیر فرمایا (ما سمعت فیہ الوضوء ) ’’کہ اس میں وضو نہیں ہے ‘‘ اسی طرح ہی دعاۃ و خطباء کو کرنا چاہئے ۔[3] ۷۔پابندی وقت موضوع کی تیاری میںخصوصی طور پر یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ خطبہ اختصار مخل اور طول ممل سے پاک ہو ۔ نیز وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا جائے۔کیونکہ توجہ سے سننے اور اسے دل میں جگہ دینے کی بھی ایک مقدار اور حد ہوتی ہے۔جس کے بعد اکتاہٹ شروع ہوجاتی ہے جوان دو نوں چیزوں کے منافی ہے ۔اور پھر سا معین میں بھی کئی حضرات ضرورت مند،اور کچھ کمزور اور بیمار ہوتے ہیں ان کو بھی ابتلاء میں نہیں ڈالنا چا ئیے ۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی پیش نظر رہنا چاہئے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : (( إِنَّ طُوْلَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِہِ مَئِنَّۃٌ مِنْ فَہْمِہِ ۔ أَیْ عَلَامَۃٌ۔ فَأَطِیْلُوْا الصَّلَاۃَ
[1] الشامل:ص68 [2] زاد المسیر: 110/6 [3] رسائل التواصل،ص18