کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 486
(( لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَیَطَؤُہُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃَ،لَیْسَ لَہُ مِنْ نِقَابِہَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ صَافِّیْنَ یَحْرُسُوْنَہَا،ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِیْنَۃُ بِأَہْلِہَا ثَلاَثَ رَجْفَاتٍ فَیُخْرِجُ اللّٰہُ کُلَّ کَافِرٍ وَمُنَافِقٍ)) [1] ’’ دجال ہر شہر میں جائے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے ، ان دونوں شہروں کے ہر دروازے پر فرشتے صفیں بنائے ہوئے ان کی نگرانی کر رہے ہونگے ، پھر مدینہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ تین مرتبہ کانپے گا جس سے اللہ تعالیٰ ہر کافرومنافق کو اس سے نکال دے گا ۔ ‘‘ مدینہ منورہ میں سب سے اہم جگہ مسجد نبوی ہے اور یہ وہ مسجد ہے جس کی زمین خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی اور اس کی بنیاد بھی خود آپ ہی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی اور یہی وہ مسجد ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: { لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ}[2] ’’جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں ۔ ‘‘ اگرچہ اس میںاختلاف پایا جاتا ہے کہ اس مسجد سے مراد کون سی مسجد ہے ،بعض نے اس سے مسجد نبوی اور بعض نے مسجد قباء مراد لی ہے لیکن صحیح مسلم کی ایک حدیث ‘ جسے حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہی ہے ۔[3] مسجدنبوی ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا مشروع ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ : اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَالْمَسْجِدِ الْأقْصٰی،وَمَسْجِدِیْ ہٰذَا [4])) ’’ ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے اور وہ ہیں : مسجد حرام ، مسجد اقصی اور میری یہ مسجد ۔ ‘‘
[1] صحیح البخاری:1881 [2] التوبۃ9 :108 [3] صحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان أن المسجد الذی أسس علی التقوی ہو مسجد النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بالمدینۃ:1398 [4] صحیح البخاری:1188،صحیح مسلم :1397