کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 483
’’ اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما نااور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت دینا ۔ ‘‘[1]
۶۔ مدینہ منورہ میں ایمان کا سکڑنا
قیامت کے قریب ایمان سکڑ کر مدینہ منورہ میں ہی رہ جائے گا ۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ الْإِیْمَانَ لَیَأْرِزُ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّۃُ إِلٰی جُحْرِہَا[2]))
’’ بے شک ایمان مدینہ کی طرف سکڑ جائے گا جیسا کہ ایک سانپ اپنی بل کی طرف سکڑ جاتا ہے ۔ ‘‘
۷۔ مدینہ منورہ لوگوں کی چھانٹی کرے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
(( أُمِرْتُ بِقَرْیَۃٍ تَأْکُلُ الْقُرَی،یَقُوْلُوْنَ:یَثْرِبْ،وَہِیَ الْمَدِیْنَۃُ تَنْفِیْ النَّاسَ کَمَا یَنْفِیْ الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ)) [3]
’’ مجھے ایک بستی ( کی طرف ہجرت کرنے ) کا حکم دیا گیا ہے جو دیگر بستیوں کو کھا جائے گی۔ ( یعنی اس بستی سے جو فوج جائے گی وہ دوسری بستیوں کو فتح کرے گی ۔) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ لوگوں کی اس طرح چھانٹی کرے گا جیسا کہ ایک بھٹی لوہے کا زنگ چھانٹ کر الگ کردیتی ہے ۔ ‘‘
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ، پھر دوسرے دن آیا تو اسے بخار ہو چکا تھا ۔ اس نے کہا : میری بیعت مجھے واپس کردیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا ۔ اس نے تین مرتبہ یہی مطالبہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرتبہ انکار کرتے رہے چنانچہ وہ مدینہ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلْمَدِیْنَۃُ کَالْکِیْرِ تَنْفِیْ خَبَثَہَا وَتَنْصَعُ طَیِّبَہَا)) [4]
’’ مدینہ بھٹی کی مانند ہے ، یہ ناپاک کو الگ کر کے پاکیزہ کو چھانٹ دیتا ہے ۔ ‘‘
اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ مدینہ میں صرف وہی لوگ رہیں گے جو خالص ایمان والے ہونگے اور وہ لوگ جن کے ایمان خالص نہیں ہونگے وہ مدینہ سے نکل جائیں گے۔[5]
[1] صحیح البخاری:1890
[2] صحیح البخاری:1876،صحیح مسلم:147
[3] صحیح البخاری:1871،صحیح مسلم:1382
[4] صحیح البخاری:1883، صحیح مسلم:1383
[5] شرح مسلم للنووی