کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 478
انصاری صحابی نے کہا : [ بچوں کو کسی طرح سے بہلانا اور] ایسا کرنا کہ بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دینا اور جب ہم دونوں ( میں اور میرا مہمان ) کھانا کھانے لگیں تو تم ہمارے پاس آجانا[ اور مہمان کو یہ ظاہر کرنا کہ جیسے ہم اس کے ساتھ کھا رہے ہیں ۔ ] اورپھر کسی طرح سے چراغ بجھا دینا ، اس طرح آج رات ہم کچھ نہیں کھائیں گے ۔ اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا ۔[ وہ دونوں ایسے ہی بیٹھے رہے اور مہمان نے کھانا کھا لیا ۔] پھر جب صبح کے وقت انصاری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَقَدْ عَجِبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ۔ أَوْ ضَحِکَ ۔ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنَۃٍ) ’’ فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا ۔ یا فرمایا : اللہ تعالیٰ کو ان سے بہت ہنسی آئی ۔ ‘‘ مسلم کی روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں : (قَدْ عَجِبَ اللّٰہُ مِنْ صَنِیْعِکُمَا بِضَیْفِکُمَا اللَّیْلَۃَ) ’’آج رات تم دونوں نے اپنے مہمان کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا ۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: {وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ }[1] (۲) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کرکے ) ہمارے پاس (مدینہ منورہ میں) آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اور حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کو بھائی بھائی قراردے دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت مالدار تھے ۔ چنانچہ وہ ( اپنے مہاجر بھائی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ) کہنے لگے : انصارِ مدینہ کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنا سار امال اپنے اور تمہارے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردوں ۔ اس کے علاوہ میری دو بیویاں ہیں ، ان میں سے جو تمہیں زیادہ بھلی معلوم ہو میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب وہ عدت پوری کر لے گی تو تم اس سے شادی کر لینا ۔ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تعالیٰ تمہارے گھر والوں میں برکت دے۔ اس کے بعد وہ سب سے قیمتی مال گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ انھوں نے شادی بھی کر لی ۔[2] یہ دونوں واقعات انصار مدینہ کے ایثار وقربانی کی بہترین مثالیں ہیں ۔ (۵) مضبوط زرہ
[1] صحیح البخاری:4889،صحیح مسلم:2054 [2] صحیح البخاری:3781