کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 473
پڑا۔بالآخر وہ منی اور مزدلفہ کے درمیان ایک مقام ’وادی محسر‘ میں پہنچ گیا۔یہاں اس نے ڈیرے ڈال دئیے اور کچھ لوٹ مار بھی کی۔ عبد المطلب جو ان دنوں کعبہ کے متولی اعظم تھے ان کے دو سو اونٹ بھی اس نے اپنے قبضے میں کر لئے۔اَبرھہ نے اہلِ مکہ کو پیغام بھیجا کہ میں آپ لوگوں سے لڑنے نہیں صرف کعبہ کو ڈھانے آیا ہوں اور میں گفت وشنید کیلئے بھی تیار ہوں ۔ اس پیغام پر عبد المطلب اس سے گفتگو کرنے کیلئے اس کے ہاں چلے گئے ، پھر ان دونوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا ۔ ابرھہ نے پوچھا : آپ کیا چاہتے ہیں ؟ عبد المطلب نے کہا : میں اپنے اونٹوں کی واپسی چاہتا ہوں ۔ ابرھہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ انھوں نے کعبہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ اس نے کہا : میرا خیال تو یہ تھا کہ آپ خانہ کعبہ کے متعلق بات کریں گے ! عبد المطلب نے کہا:میں اونٹوں کا مالک ہوں اور ظاہر ہے کہ میں انہی کے متعلق ہی بات کر سکتا ہوںاورجہاں تک خانہ کعبہ کا تعلق ہے تو اس کا بھی ایک مالک ہے جو خود اس کی حفاظت کرے گا ۔ ابرھہ نے اونٹ واپس کر دئیے اور عبد المطلب واپس چلے آئے ۔ اُدھر ابرھہ نے پیش قدمی کا ارادہ کر لیا لیکن سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ خود ابرھہ کے ہاتھی نے خانہ کعبہ کی طرف جانے سے انکار کردیا ۔ اسے بہتیرے تیر لگائے گئے لیکن وہ کسی اور جانب تو چل پڑتا ، خانہ کعبہ کی جانب آگے بڑھنے کا نام ہی نہ لیتا ۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے پرندوں کے غول کے غول بھیج دئیے ، ان میں سے ہر ایک کی چونچ میں اور اسی طرح دو پنجوں میں ایک ایک کنکر تھا ، پرندوں نے وہی کنکر ابرھہ کے لشکر پر پھینک کر اسے تباہ وبرباد کردیا ۔[1] مکہ مکرمہ کی حرمت مکہ مکرمہ حرمت والا شہر ہے ، اس لئے اس کے تقدس کا لحاظ رکھنا فرض ہے۔اس کی حرمت کی بناء پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعض خاص احکامات فتح مکہ کے موقع پر یوں بیان فرمائے :(( إِنَّ ہٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأرْضَ،فَہُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَۃِ اللّٰہِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ،وَإِنَّہُ لَمْ یَحِلَّ
[1] تفسیر تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒ