کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 470
بنائی گئی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مسجد ِ حرام ‘‘ انھوں نے کہا : پھر کونسی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مسجد اقصی‘‘ انھوں نے کہا : ان کے درمیان کتنی مدت تھی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چالیس سال ۔‘‘[1] 2۔ دوسری فضیلت یہ ہے کہ یہ گھر بابرکت ہے ۔ 3۔ تیسر ی یہ ہے کہ یہ تمام جہان والوں کیلئے مرکزِ ہدایت ہے ۔ 4۔ چوتھی یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی کھلی نشانیاں ہیں (مثلا زمزم وغیرہ ۔ ) ان میں سے ایک نشانی مقامِ ابراہیم ہیاور یہ وہ پتھرہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں۔ 5۔ پانچویں فضیلت یہ ہے کہ جو شخص اس گھر میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے ۔ خانہ کعبہ عظیم عبادت گاہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ }[2] ’’اورجب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ قرار دیا( تو حکم دیا کہ ) مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔‘‘ (مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ) سے مراد یہ ہے کہ یہ گھر لوگوں کے بار بار آنے جانے کی جگہ ہے۔ چنانچہ لوگ حج وعمرہ کی غرض سے متعدد مرتبہ بیت اللہ میں آتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے ثواب حاصل کرتے ہیں ۔ نیز فرمایا :{جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ ۔۔۔۔۔}[3] ’’ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو قابل احترام گھر ہے لوگوں کیلئے ( امن وجمعیت) کے قیام کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔ ‘‘ مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ (قِیَامًا لِّلنَّاسِ)کے تین الگ الگ مطلب لئے جا سکتے ہیں اور وہ تینوں ہی درست ہیں : 1۔ الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد لئے جائیں ۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہو گا کہ یہ کارخانۂ عالم
[1] صحیح البخاری:3366 و3425،صحیح مسلم:520 [2] البقرۃ2 :125 [3] المائدۃ5 :97