کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 461
صلہ رحمی کے بارے میں بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے رشتہ دار ان سے صلہ رحمی کریں تو ان کو بھی اُن سے کرنی چاہئے حالانکہ یہ مفہوم بالکل غلط ہے اورصلہ رحمی کا درست مفہوم یہ ہے کہ اگر رشتہ دار قطع رحمی کریں تو ان سے صلہ رحمی کی جائے ، اگر وہ بدسلوکی کریں تو ان سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر وہ نہ دیں تو تب بھی انہیں دیا جائے ۔ الغرض یہ کہ رشتہ دار صلہ رحمی کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اپنی طاقت کے مطابق انسان اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا رہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیِٔ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا)) ’’ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے ، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘[1] لہٰذا عید کی خوشیوں میں اقرباء اور فقراء ومساکین کو بھی شریک کرنا چاہئے ۔ برادران اسلام ! آخر میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت مبارکہ کی یاد دہانی کرا دیں اور وہ ہے عید کی نماز کے بعدراستہ تبدیل کرکے واپس جانا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا خَرَجَ یَوْمَ الْعِیْدِ فِی طَرِیْقٍ رَجَعَ فِی طَرِیْقٍ آخَرَ) [2] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تھے تو ایک راستے سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس لوٹتے تھے ۔ ‘‘ لہٰذا جس راستہ سے آئے تھے اُس سے نہیں بلکہ دوسرے راستہ سے واپس جائیں اور عید کی خوشیوں میں ایک دوسرے کو شریک کریں ۔ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیں اور(تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ)کے الفاظ کے ساتھ عبادات کی قبولیت کی دعاؤں کا تبادلہ کریں جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کرتے تھے ۔ حضرت جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم إِذَا الْتَقَوْا یَوْمَ الْعِیْدِ یَقُولُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ:تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ ) [3]
[1] صحیح البخاری،الأدب،باب لیس الواصل بالمکافیٔ :5991 [2] سنن الترمذی :541وصححہ الألبانی [3] ذکرہ الحافظ فی فتح الباری:446/2