کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 46
الموضوعۃ أو الضعیفۃ المتروکۃ مع أنہ لا یجوز لأحد أن یسند حدیثا إلی رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم حتی یتوثق من صحتہ فلینتہ الخطباء الی ہذا فإنہ من أہم المہمات‘‘[1]
’’بہت سے خطباء موضوع اور ضعیف احادیث بیان کرتے ہیں حالانکہ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر تصدیق وتوثیق کے کسی حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرے ۔ یہ انتہائی اہم نکتہ ہے جس کی طرف خطباء کو خصوصی توجہ دینی چاہئے۔‘‘
۵۔موضوع روایات بیان کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار[2]))
’’ جس نے دانستہ مجھ پر جھوٹ بولا اسے اپنا ٹھکانا جہنم بنا لینا چاہئے۔‘‘
اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من یقل علی ما لم أقل فلیتبوأ مقعدہ من النار)) [3]
’’ جس نے میرے حوالے سے وہ بات کہی جو میں نے نہیں کہی اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیے۔‘‘
اسی لیے علماء ربانی اور محدثین کرام کے نزدیک موضوع اور من گھڑت روایات بیان کرنا حرام ہے خواہ وہ ترغیب وترہیب کے لیے ہو یاکسی اور غرض کے لیے ۔صرف ایک صورت میں ان روایات کو بیان کرنا جائز ہے کہ لوگوں کو ان کے بطلان اور من گھڑت ہونے سے آگاہ کرنا مقصود ہو۔
ابن قتیبہ فرماتے ہیں:’’الوجہ الثانی القصاص فانہم یمیلون وجہ العوام إلیہم ویشیدون ما عندہم بالمناکر والآکاذیب من الأحادیث۔ومن شأن العوام القعود عند القاص ما کان حدیثہ خارجا عن نظر المعقول أو کان رفیقا یحزن القلب‘‘[4]
’’من گھڑت روایات اور قصے بیان کرنے والوں میں سے ایک قسم قصہ گو واعظین کی بھی ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے منکر اور من گھڑت روایات بیان کرتے ہیں اور عوام کا مزاج ہوتا ہے کہ وہ عجیب وغریب اور دل کو گداز کرنے والی حکایات بیان کرنے اور مجمع کو رلانے والے واعظین کے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔‘‘
[1] الشامل:ص246
[2] صحیح بخاری،کتاب العلم:ح،100
[3] صحیح بخاری،کتاب العلم:ح،109
[4] تأویل مختلف الحدیث