کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 440
الشَّعِیْرُ وَالزَّبِیْبُ وَالْأقِطُ وَالتَّمْرُ) [1]
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عید الفطر کے دن جنسِ طعام سے ایک صاع بطور فطرانہ نکالتے تھے اور اُس وقت ہمارا کھانا جَو ، منقی ، پنیر اور کھجور سے تھا۔ ‘‘
لہٰذا فطرانہ جنسِ طعام سے ہی ادا کرنا چاہئے مثلا گندم اور چاول وغیرہ ۔
صدقۃ الفطر میں حکمت یہ ہے کہ اِس کی ادائیگی سے ایک تو غریب لوگوں کو کھانے کیلئے کچھ مل جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ روزہ کے دوران روزہ دار سے جو لغو اور بے ہودہ اقوال وافعال صادر ہوتے ہیں ان کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ ، وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِیْنِ) [2]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ فرض قرار دیا ۔ اِس سے روزہ دار اُن لغویات اور بے حیائی والے اقوال وافعال کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے جو اس سے دورانِ روزہ صاد ر ہوتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا بھی مل جاتا ہے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ فطرانہ نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا چاہئے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کا حکم دیا تھا جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے جسے ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(مَنْ أَدَّاہَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُوْلَۃٌ، وَمَنْ أَدَّاہَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ) [3]
’’ جو شخص اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کرے تو وہ مقبول زکاۃ ہے اور جو شخص اسے نمازِ عید کے بعد ادا کرے تو وہ عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے ۔ ‘‘
آدابِ عید
اس مبارک ماہ کے اختتام پر صدقۃ الفطرکی ادائیگی کے علاوہ چند دیگر آداب کا بھی مسلمان کو خیال رکھنا چاہئے ۔
1۔ ان میں سے پہلا یہ کہ شوال کا چاند دیکھتے ہی عید رات اور یومِ عید کی صبح کو تکبیرات کے بار بار پڑھنے کا
[1] صحیح البخاری:1510
[2] سنن أبی داؤد:1609وحسنہ الألبانی
[3] أیضا