کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 44
‘‘کہ فصاحتِ کلام اور بلاغتِ بیان کے لیے ضروری ہے کہ وہ موقعہ ومحل کے مطابق ہو۔ اس کے لیے خطیب پر ضروری ہے کہ عوام کی مقامی ضرورت اورزمان ومکان اوراحوال وظروف کے مطابق موضوع تیار کر ے ۔یعنی موسم حج میں حج کے مسائل اور رمضان المبارک میں روزے کے مسائل ۔ اور اگر وہ اس کے برعکس کرے گا تو خطبہ کا مقصد فوت اور لوگوں کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔چنانچہ افصح العرب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات جو کہ فصاحت وبلاغت کے لیے معیار ہیں۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وکان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم یخطب فی کل وقت بما تقتضیہ حاجۃ المخاطبین ومصلحتہم‘‘[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سامعین کی ضروریات اور مصالح کو مد نظر رکھ کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔‘‘ اور شیخ محمد ابو زہرہ فرماتے ہیں:’’مراعاۃ مقتضی الحال لب الخطابۃ وروحہا فلکل مقام مقال۔‘‘[2] ’’کہ مقتضائے حال کا خیال رکھنا خطابت کی روح اور لب لباب ہے کیونکہ ہر مقام پر موقعہ کی مناسبت سے کلام کی جاتی ہے۔‘‘ اورمیثاق مسجد میں ہے: ’’ ومن الخطأ البالغ تفویت حکمۃ الخطبۃ بالتہاون فی إعدادہا تارۃ وبالقصورعن مستوی الموقف تارۃ أخری بحفظ بعض الخطب وترتیب القاہا عن ظہر قلب اسبوعا بعد اسبوع دون احسان التأتی لأحوال جمہور المسجد أو حسن الفہم لما یقتضیہ الحال۔‘‘[3] ’’خطبہ کے مقصد حقیقی کو ضائع کر دینا بہت بڑی کوتاہی ہے۔ایسا یا تو موضوع کی تیاری میں کوتاہی کی وجہ سے یا اختیار موضوع کے سبب اور یا پھر بعض خطبات کو حفظ کر لینے اور بغیر موقعہ کی مناسبت اور عوام کی ضروریات کا خیال رکھے لوگوں کو سنا دینے سے ہوتا ہے ۔‘‘ اور بالخصوص کیسٹی خطباء نے جہاں علم ومعرفت کا جنازہ نکالا ہے وہاں خطبہ کے فطرتی حسن ورعنائی کو بھی گہنا کر رکھ دیا ہے۔اس لیے کہ صاحب کیسٹ بھی آخر انسان ہیں اگر کہیں ان سے سہو یا خطا سرزد ہوئی ہے تو یہ (نقال حضرات)اس قدر بے توفیق واقع ہوئے ہیں کہ اصلاح کرنے کی بجائے مکھی پہ مکھی مارتے چلے جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل درکار ہے۔
[1] زاد المعاد:189/1 [2] الخطابۃ لمحمد أبی زہرہ:ص56 [3] أدب الخطبۃ والخطیب:ص13