کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 437
اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اِس مبارک رات کی تعیین کر دی گئی تھی لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھلا دی گئی ۔ اِس کا سبب ایک اور حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اِس کے بارے میں آگاہ کرنے کیلئے آئے تو آپ نے دیکھا کہ دو مسلمان آپس میں ( کسی بات پر ) جھگڑا کر رہے ہیں ۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن سے اُس رات کی تعیین کا علم بھلا دیا گیا ۔[1]
شاید اِس رات کے بھلائے جانے میں حکمت یہ ہو کہ اللہ کے بندے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے اور اس رات کو پانے کیلئے زیادہ سے زیادہ عبادت کریں ۔ واللہ اعلم
اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات میں آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس سال جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا کہ لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا جائے ‘ یہ مبارک رات اکیسویں رات میں آئی تھی ۔ اسی طرح اِس حدیث سے لیلۃ القدر کی ایک نشانی بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے بارش کا نازل ہونا ۔ یہ نشانی ایک اور حدیث میں بھی بیان کی گئی ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أُرِیْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِیْتُہَا ،وَأُرَانِی صُبْحَہَا أَسْجُدُ فِی مَائٍ وَطِیْنٍ))
’’ مجھے لیلۃ القدر دکھلائی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی اور میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تیئیسویں رات میں ہم پر بارش نازل ہوئی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے آثار نمایاں تھے۔ [2]
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلۃ القدر رمضان کی آخری سات راتوں میں ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَرَی رُؤْیَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِی السَّبْعِ الْأوَاخِرِ،فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُتَحَرِّیَہَا فَلْیَتَحَرَّہَا فِی السَّبْعِ الْأوَاخِرِ)) [3]
’’ میں سمجھتا ہوں کہ تمھارے خواب متفق ہیں اس بات پر کہ یہ رات آخری سات راتوں میں ہے ۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص اِس رات کو پانا چاہے تو وہ اسے آخری سات راتوں میں پانے کی کوشش کرے ۔ ‘‘
[1] صحیح البخاری:2023
[2] صحیح مسلم:1168
[3] صحیح البخاری:2015،صحیح مسلم :1165