کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 436
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر کی عبادت ہزار مہینوں یعنی تراسی سال چار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے اور یہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ایک رات کی عبادت پر اللہ تعالیٰ تراسی سال چار مہینوں کی عبادت کا اجر وثواب دیتا ہے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ[1])) ’’ جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ِ اجر وثواب کی خاطر لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ‘‘ یہ رات کب آتی ہے ؟ اس کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں جو اختصار کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں ۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے درمیانے عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔ چنانچہ جب اکیسویں رات آتی تو آپ اور آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھنے والے دیگر لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ۔ پھر ایک مرتبہ جب اسی طرح اکیسویں رات آئی تو آپ اعتکاف میں ہی رہے اور آپ نے لوگوں سے خطاب کیا اور انھیں ’ جو کچھ اللہ نے چاہا ‘ احکامات دئیے ۔ پھر آپ نے فرمایا : (( کُنْتُ أُجَاوِرُ ہٰذِہِ الْعَشْرَ،ثُمَّ قَدْ بَدَا لِی أَنْ أُجَاوِرَ ہٰذِہِ الْعَشْرَ الَأَوَاخِرَ ،فَمَنْ کَانَ اعْتَکَفَ مَعِی فَلْیَثْبُتْ فِی مُعْتَکَفِہٖ،وَقَدْ أُرِیْتُ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃَ ثُمَّ أُنْسِیْتُہَا،فَابْتَغُوْہَا فِی الْعَشْرِ الأوَاخِرِ،وَابْتَغُوْہَا فِی کُلِّ وِتْرٍ،وَقَدْ رَأَیْتُنِیْ أَسْجُدُ فِی مَائٍ وَطِیْنٍ )) ’’ میں یہ درمیانہ عشرہ اعتکاف میں گذارتا تھا ، پھر مجھے یہ مناسب لگا کہ میں یہ آخری عشرہ اعتکاف میں بیٹھوں۔ لہٰذا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں تھا وہ اپنی جائے اعتکاف میں ہی رہے اور مجھے یہ رات ( لیلۃ القدر ) خواب میں دکھلائی گئی تھی پھر وہ مجھے بھلا دی گئی ۔لہٰذا اب تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور اس کی طاق راتوں میں اسے پانے کی کوشش کرو اور میں نے اپنے آپ کو ( خواب میں ) دیکھاکہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ چنانچہ اُس ( اکیسویں ) رات میں تیز بارش ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز پر بھی چھت سے پانی کے قطرے گرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت نماز سے فارغ ہوئے تو میری آنکھوں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کے آثار نمایاں تھے ۔ [2]
[1] صحیح البخاری:2014، صحیح مسلم:760 [2] صحیح البخاری:2016، صحیح مسلم:1167