کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 435
سکتا ہے ۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کیلئے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتا ہو ، بات نرمی سے کرتا ہو ،مسلسل روزے رکھتا ہو اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ ‘‘
ان آیات اور احادیث کے پیش نظر خصوصا آخری عشرہ میں قیام ضرور کرنا چاہئے اور خصوصا رات کے آخری تہائی حصہ میں دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ،فَیَقُوْلُ:مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ؟مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ)) وفی روایۃ لمسلم:(( فَلَا یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ[1]))
’’ ہمارا رب ‘ جو بابرکت اور بلند وبالا ہے ‘ جب ہر رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردوں؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے۔ ‘‘
لیلۃ القدر
برادران اسلام ! رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت اِس لیے بھی زیادہ ہے کہ اسی عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :
{إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ.وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ .لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ.تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ .سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ}[2]
’’ بے شک ہم نے یہ ( قرآن ) لیلۃ القدر یعنی باعزت اور خیر وبرکت والی رات میں اتارا اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے ! لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوعِ فجر تک ۔ ‘‘
[1] صحیح البخاری:1145،6321،7494،صحیح مسلم:758
[2] القدر97:5-1