کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 433
قیام اللیل
فرائض سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتوں اور اسی طرح نماز چاشت کے علاوہ قیام اللیل کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے تھے ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا اور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی ۔ پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کرایا۔ پھر پچیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرایا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کاش آج آپ ساری رات ہی ہمیں قیام کراتے !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
(( إِنَّہُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَہُ قِیَامُ لَیْلَۃٍ))
’’ جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام قیام ختم کردے تو اس کیلئے پوری رات کے قیام کا اجر لکھا جاتا ہے ۔‘‘
پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کرایا۔ پھر ستائیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرایا اور اپنے گھر والوں اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللّٰه عنہن کو بھی بلا لیا اور اتنا لمبا قیام کرایا کہ ہمیں سحری کے فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔[1]
اسی طرح حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیئیسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا ، پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک کیا اور ستائیسویں رات کو اتنا لمبا قیام کیا کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ شاید آج ہم سحری نہیں کر سکیں گے۔[2]
واضح رہے کہ قیام اللیل کوئی الگ نماز نہیں ، نمازِ تراویح بھی قیام اللیل ہی ہے ۔ اِس لئے خصوصا آخری عشرہ میں نماز تراویح لمبی پڑھنی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳، ۲۵ اور ۲۷ کی راتوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو لمبی نماز پڑھائی ۔
[1] سنن الترمذی:806:حسن صحیح،سنن أبی داود:1375،سنن النسائی:1605،سنن ابن ماجہ: 1327۔ وصححہ الألبانی
[2] سنن النسائی:1606۔ وصححہ الألبانی