کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 43
ہیں جن کے بغیر اسلام خطرے میں ہے۔(فااللّٰه خیر حافظا ) امام کعبہ ڈاکٹر شریم فرماتے ہیں : بعض لوگ جمعہ کے دن خطبہ سے چند لمحات قبل یاکچھ وقت پہلے خطبہ تیار کرنا شروع کرتے ہیں اور انکی یہ عادت درست نہیں ہے ۔اس کے بعد فرماتے ہیں ۔ ’’فالواجب علی الخطیب أن یضع جل ہمہ وتفکیرہ فی خطبۃ الجمعۃ،ویفرغ لہا الوقت الطویل لاعدادہا الاعداد المناسب،وینظر فی حاجات الناس ومقتضی حالہم کما کان یفعل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘[1] اور خطبہ کی تیاری کی دو قسمیں ہیں: 1۔اعداد ذہنی: یعنی خطیب کوالقاء سے قبل خطبہ ذہن نشین کرنا چاہئے ۔ 2۔ کتابی (تحریری) خواہ اس کے اہم نکات ہی کیوںنہ لکھے جائیں۔ موضوع خطبہ :اس سے مراد مضمونِ خطبہ اور وہ معلومات ہیں جو ایک خطیب سامعین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ خطبہ کا مرکزی اور اہم رکن ہے جس کے اعداد اور تیاری میں خطیب کے لیے چند امور کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے تاکہ مقصود خطاب کا حصول ممکن ہو سکے۔ ۱۔تعیین ہدف خطبہ کا موضوع تیار کرنے کے لیے سب سے پہلے خطیب کو اس بات کا تعین کرنا چاہئے کہ اس کے خطبہ کی غرض وغایت اور مقصد کیا ہے کیونکہ تعیین منزل کے بغیر رہ منزل کا انتخاب مشکل ہوتا ہے اور خطیب اسلام کا ہدف صرف اور صرف یہی ہونا چاہئے کہ { إِنْ اُرِیْدُ إِلاَّ الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ}[2] ’’میں تو حتی الامکان اصلاح چاہتا ہوں اور توفیق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اس پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘ اور’’ الدین النصیحۃ ‘‘کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ۲۔موقعہ کی مناسبت کلا م فصیح اسی کو کہا جاتا ہے جو مقتضائے حال کے مطابق ہواور ادباء کا مشہور قول ہے ’’لکل مقام مقال
[1] الشامل،ص64 [2] ہود11:88